وقف ترمیمی بل کیلئے بنائی گئی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی معیاد میں توسیع کی جائیگی۔ اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد کیا گیا فیصلہ
نئی دہلی ۔ 27؍ نومبر ۔ (اردو لائیو): وقف (ترمیمی) بل کیلئے بنائی گئی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی میعاد میں توسیع کی جائے گی۔ صدر جگدمبیکا پال اسپیکر اوم برلا سے ملاقات کر کے اس کی تجویز پیش کریں گے۔
دراصل چہارشنبہ (27؍ نومبر) کو جے پی سی کی آٹھویں میٹنگ کا اپوزیشن اراکین نے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ ان کا الزام تھا کہ صدر جگدمبیکا پال بغیر تیاری کے 29 نومبر کو جے پی سی کا مسودہ لوک سبھا میں پیش کرنے والے ہیں۔
اپوزیشن کی ناراضگی کے بعد پال اور بی جے پی کے اراکین نے اپوزیشن اراکین سے علیحدہ بات چیت کی۔ اس کے بعد جے پی سی کی میعاد کو بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
پال نے کہاکہ جے پی سی اپنے خیالات میں یکسو ہے۔ جے پی سی کو 6 ریاستوں اور کچھ اسٹیک ہولڈرز (اراکین) کی بات سننا باقی ہے کیونکہ وہاں وقف اور ریاستی حکومتوں کے درمیان تنازعہ ہے۔
بی جے پی رکن پارلیمنٹ اور جے پی سی کی رکن اپراجتا سارنگی نے کہا کہ حکومت کے اراکین نے بھی محسوس کیا کہ اس کی توسیع ہونا چاہیے۔ لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے جے پی سی کی تحقیقاتی رپورٹ کی آخری تاریخ 2025 کے بجٹ سیشن کے آخری دن تک بڑھانے کی درخواست کی جائے گی۔ جگدمبیکا پال لوک سبھا میں اس کے لیے تجویز پیش کر سکتے ہیں۔
اپوزیشن ارکان کے جے پی سی کے صدر پر الزامات:
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گورو گوگوئی: لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے اشارہ دیا تھا کہ کمیٹی کو توسیع دی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی ‘‘بڑا وزیر’’ جگدمبیکا پال کی کارروائی کو ڈائریکٹ کر رہا ہے۔
عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ: اسپیکر نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ جے پی سی کی معیاد کو بڑھا دیں گے۔ لیکن اب انہوں نے کہا کہ مسودہ رپورٹ پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔ پال نے دہلی حکومت، جموں و کشمیر حکومت، پنجاب حکومت، یوپی حکومت کی بات نہیں سنی۔
وائی ایس آر سی پی کے رکن پارلیمنٹ وی وجے سائی ریڈی: بی جے پی کے ساتھ اتحاد نہ کرنے والی تمام پارٹیاں جے پی سی کی توسیع چاہتی تھیں، لیکن پال نے اپنا کام مکمل کرنے کی بات کہی تاکہ رپورٹ 29 نومبر کو لوک سبھا میں پیش کی جا سکے۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر و رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی: مینڈیٹ یہ ہے کہ رپورٹ 29 (نومبر) کو دی جانی چاہیے۔ ہم اسے کیسے دے سکتے ہیں، اس کے لیے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیا جانا چاہیے جو نہیں کیا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کمیٹی نے بہار، مغربی بنگال کا دورہ نہیں کیا ہے۔ ایسے کئی اسٹیک ہولڈرز ہیں جنہیں ہم آنے دینا چاہتے ہیں۔ یہ کمیٹی تمام اسٹیک ہولڈرز کو آنے کی اجازت کیوں نہیں دے رہی ہے؟
جے پی سی کے پاس لوک سبھا کے 21 ممبران ہیں – 7 بی جے پی سے، 3 کانگریس کے
1جگدمبیکا پال (بی جے پی) 2 . نشی کانت دوبے (بی جے پی) 3. تیجسوی سوریا (بی جے پی) 4. اپراجیتا سارنگی (بی جے پی) 5. سنجے جیسوال۔ 6. دلیپ سائکیا (بی جے پی) 7. ابھیجیت گنگوپادھیائے (بی جے پی) 8. محترمہ ڈی کے ارونا (وائی ایس آر سی پی) 9. گورو گوگوئی (کانگریس) 10. عمران مسعود (کانگریس) 11. محمد جاوید (کانگریس) 12. مولانا محب اللہ (ایس پی) 13. کلیان بنرجی (ٹی ایم سی) 14. اے راجہ (ڈی ایم کے) 15. ایل ایس دیورایالو (ٹی ڈی پی) 16۔ دنیشور کامت (جے ڈی یو) 17. ارونت ساونت (شیو سینا، ادھو) دھڑا) 18. سریش گوپی ناتھ (این سی پی، شرد پوار) 19. نریش گنپت مہاسکے (شیو سینا، شندے کا دھڑا) 20. ارون بھارتی (ایل جے پی-آر) 21. اسد الدین اویسی (اے آئی ایم آئی ایم)
جے پی سی میں راجیہ سبھا کے 10 ممبران – 4 بی جے پی، ایک ممبر کانگریس
- برج لال (بی جے پی) 2. ڈاکٹر میدھا وشرام کلکرنی (بی جے پی) 3. غلام علی (بی جے پی) 4. ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال (بی جے پی) 5. سید نصیر حسین (کانگریس) 6. محمد ندیم الحق (ٹی ایم سی) 7. وی وجیا سائی ریڈی (وائی ایس آر سی پی) 8. ایم محمد عبداللہ (ڈی ایم کے) 9. سنجے سنگھ (اے اے پی) 10. ڈاکٹر دھرمستھل وریندر ہیگڑے (صدر کی طرف سے نامزد)