
نئی دہلی ۔ 5؍ نومبر ۔ (اردو لائیو): اتر پردیش کے مدرسہ ایکٹ کو سپریم کورٹ نے آئینی قرار دیا ہے۔ تین ججوں کی بنچ نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ مدرسہ ایکٹ مکمل طور پر آئین کے تحت ہے۔ اس لیے اس کے جواز کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم سپریم کورٹ نے یہ ضرور کہا کہ مدارس میں مناسب سہولیات ہونی چاہئیں اور وہاں پڑھائی کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ جس روح اور قواعد کے تحت مدرسہ ایکٹ بنایا گیا ہے اس میں کوئی خامی نہیں ہے۔ اس لیے اسے غیر آئینی قرار دینا درست نہیں۔ اس طرح سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو پلٹ دیا ہے۔ ہائی کورٹ نے یوپی مدرسہ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ الہ آباد ہائی کورٹ کے یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں پر منگل کو اپنا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو سننے کے بعد 22 اکتوبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
چیف جسٹس دھننجے وائی چندرچوڑ کی زیرقیادت بنچ کے ذریعہ سنائے گئے فیصلے میں معیاری تعلیم کو فروغ دینے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے درمیان توازن کو اجاگر کیا گیا اور کہا گیا کہ اس طرح کے ضابطے کا مقصد مدرسہ کے نظام کو ختم کرنے کے بجائے اسکی تائید کرنا ہونا چاہئے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 2004 کا قانون ایک ریگولیٹری قانون ہے، جسے آرٹیکل 21A کی دفعات کے مطابق بنایا جانا چاہیے، جو تعلیم کے آئینی حق کو یقینی بناتا ہے۔
جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے کہا کہ یہ قانون نہ صرف درست ہے بلکہ مدارس پر ریاستی نگرانی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت مذہبی اقلیتوں کے اپنے تعلیمی اداروں کا انتظام کرنے کے حق کا بھی تحفظ کرتا ہے۔اس میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ نے اس فیصلے میں غلطی کی کہ 2004 کا قانون سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی مبینہ خلاف ورزی کی وجہ سے کسی قانون کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔انجم قادری اور دیگر کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے مدارس کے ریگولیشن کو قومی مفاد میں قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اقلیتوں کے لیے الگ الگ مقامات بنانے سے ملک کے سینکڑوں سال پرانے مخلوط کلچر کو نقصان پہنچے گا’ تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ملک میں مذہبی تعلیم کبھی بھی لعنت نہیں رہی ہے۔ بنچ نے اتر پردیش مدرسہ ایکٹ 2004 کو ختم کرنے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے انجم قادری اور دیگر کی اپیلوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔



