شام میں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ظالم بشارالاسد ملک چھوڑ کر فرار ۔ مسلح گروہ نے فتح کا اعلان کردیا۔ 13 سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ
دمشق ؍ حمص ۔ 8؍ ڈسمبر ۔ (ایجنسیز): شام میں ایک بڑا سیاسی اور عسکری موڑ دیکھنے کو ملا ہے جب شامی عوام کے مسلح گروہ نے دمشق پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ظالم و جابر شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ کا اعلان کیا ہے۔ ہیت تحریر الشام کے سربراہ احمد الشارع کے مطابق ‘‘یہ ایک تاریک دور کے خاتمہ اور ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔’’ یہ پیشرفت 13 سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔
دمشق اور حمص پر مسلح گروہ کا کنٹرول
شام کے مرکزی شہر دمشق میں مسلح گروہ نے سرکاری عمارتوں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور سرکاری ٹی وی سے عوام کو آزاد شام کی خودمختاری کا پیغام دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حمص پر مکمل کنٹرول نے باغیوں کو شام کے اسٹریٹجک دل اور اہم مواصلاتی راستوں پر قبضہ فراہم کیا ہے۔ حمص پر قبضے کو حزب اختلاف کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس شہر نے برسوں تک جنگ اور محاصرے کا سامنا کیا تھا۔
حمص کے سقوط کے بعد باغی دھڑوں نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا، اور ساڑھے تین ہزار سے زائد قیدیوں کو فوجی جیل سے آزاد کردیا گیا۔
بشار الاسد ملک سے فرار
برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق، بشار الاسد ملک چھوڑ کر ایک نامعلوم مقام پر چلا گیا ہے۔ یہ اطلاعات ایک ایسے وقت میں سامنے آئیں جب باغی فورسز نے شام کے دفاعی مراکز، سرکاری عمارتوں، اور دمشق کے مرکزی مقامات اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ تاہم، باغی ذرائع کے مطابق، بشار الاسد کے مقام کے بارے میں کوئی ٹھوس انٹیلی جنس رپورٹ موجود نہیں ہے اور اس کی تلاش جاری ہے۔
عوام کا جوش و خروش
دمشق میں عوام کا جوش و خروش عروج پر ہے۔ امیہ چوک پر ہزاروں افراد جمع ہوکر آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق، لوگ پیدل اور گاڑیوں میں خوشی کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ کچھ افراد فوج کے چھوڑے گئے ٹینکوں پر چڑھ گئے اور مسلح گروھوں کے ساتھ جشن منایا۔
عبوری حکومت کی تشکیل
مسلح گروھ نے اعلان کیا ہے کہ شام کی تمام سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو محفوظ رکھا جائے گا اور عبوری حکومت کی قیادت سابق وزیراعظم محمد غازی الجلالی کریں گے۔ الجلالی نے کہا کہ وہ ریاستی امور کی مستقل نگرانی کے لیے تیار ہیں۔
ہیت تحریر الشام کے رہنما احمد الشارع نے فوجی دستوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ سرکاری اداروں میں مداخلت نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام سرکاری دفاتر وزیراعظم کی نگرانی میں رہیں گے جب تک کہ انہیں باضابطہ طور پر اقتدار نہ دیا جائے۔ احمد الشارع نے عوام سے بھی درخواست کی کہ وہ امن و امان کا خیال رکھیں اور کسی قسم کی غیرضروری خوشی میں ہوائی فائرنگ سے گریز کریں۔
ظالم و جابر اسد خاندان کی حکمرانی کا اختتام
شام میں ظالم و جابر اسد خاندان کی حکمرانی 1971ء میں حافظ الاسد کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ حافظ الاسد نے 2000ء تک ملک پر حکمرانی کی، جس کے بعد اس کے بیٹے بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا۔ بشار الاسد کی 24 سالہ حکمرانی کے دوران شام نے متعدد داخلی اور خارجی بحرانوں کا سامنا کیا، جن میں عرب بہار اور خانہ جنگی شامل ہیں۔
علاقائی اور بین الاقوامی ردعمل
قطر میں ہونے والے دوحہ فورم کے مشترکہ اعلامیہ میں شام کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اعلامیہ میں قطر، سعودی عرب، ترکی، ایران، اور روس سمیت دیگر ممالک نے شام کی موجودہ صورتحال کو علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا اور فوری سیاسی حل پر زور دیا۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر روکا جائے اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
بشار الاسد کے خلاف جنگ کی نوعیت
بشار الاسد کی حکومت نے اپنی بقا کے لیے ایک طویل عرصہ تک اتحادیوں پر انحصار کیا۔ روسی فضائیہ نے اپوزیشن کے مضبوط ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کی، جبکہ ایران نے اپنے حلیف گروہوں، جیسا کہ حزب اللہ اور عراقی دھڑوں، کو شامی فوج کی مدد کے لیے بھیجا۔ لیکن باغیوں نے ان تمام چیلنجز کے باوجود دمشق اور حمص پر قبضہ کرکے اپنے ارادے ظاہر کردیے۔
آگے کا راستہ
باغیوں نے وعدہ کیا ہے کہ آزاد شام میں عوام کی خوشحالی اور انصاف کے لیے جامع اقدامات کیے جائیں گے۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی، عوامی املاک کے تحفظ، اور عبوری حکومت کی تشکیل کے اعلانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلح گروہ عوام کے دل جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن شام کے مستقبل پر کئی سوالیہ نشان موجود ہیں، جن میں اقتصادی صورتحال، بین الاقوامی مداخلت، اور ملک کے سیاسی نظام کی تشکیل شامل ہیں۔
شام میں حالیہ پیشرفت نے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ بشار الاسد کا تختہ الٹنا ایک نئے عہد کے آغاز کی علامت ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں سیاسی استحکام اور عوام کی خوشحالی کو یقینی بنایا جائے۔ عالمی طاقتوں کا کردار بھی شام کے مستقبل کی تشکیل میں اہم ہوگا۔ شام میں امن اور ترقی کی بحالی کے لیے تمام فریقوں کو تعاون اور سیاسی مکالمہ کا راستہ اپنانا ہوگا۔