‘‘نقاب ہٹائیے، نہیں ہٹاؤں گی’’، جج اور مسلم خاتون وکیل کے درمیان تیز وتند بحث۔جموں ہائی کورٹ کا سماعت سے انکار
جموں ۔ 23؍ ڈسمبر۔ (اردو لائیو): جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے گزشتہ دنوں ایک ایسی مسلم خاتون وکیل کے کیس کی سماعت سے انکار کردیا، جس نے سماعت کے دوران اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانپا ہوا تھا۔ جب جج نے خاتون سے نقاب ہٹانے اور چہرہ دکھانے کو کہا تو مبینہ وکیل نے چہرہ دکھانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جج نے اس کیس کی سماعت سے انکار کر دیا اور ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل سے رپورٹ طلب کی کہ کیا کسی خاتون وکیل کو چہرہ ڈھانپ کر کسی کیس کی پیروی کرنے کی اجازت ہے۔ عدالت نے اس خاتون وکیل کی بات سننے سے انکار کر دیا اور آگے کی تاریخ دے دی۔
بار اینڈ بینچ کی رپورٹ کے مطابق، رجسٹرار جنرل کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ہائی کورٹ کی جسٹس موکش کھجوریہ کاظمی نے 13؍ ڈسمبر کو اپنے حکم میں کہا کہ بار کونسل آف انڈیا (بی سی آئی) کے مقرر کردہ قواعد میں کہیں بھی اس طرح کے حق کا ذکر نہیں ہے، جس کے تحت کوئی خاتون چہرے پر نقاب لگا کر یا برقعہ پہن کر عدالت میں کیس کی پیروی کر سکے۔ عدالت نے کہا کہ بی سی آئی کے قواعد کے چیاپٹر IV (پارٹ VI) کی شق 49(1) (جی جی) میں خواتین وکلاء کے لیے منظور شدہ لباس کوڈ کی تفصیل دی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ‘‘ان قواعد میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لیے اس قسم کا لباس قابل قبول ہے۔’’
دراصل، 27؍ نومبر کو ہائی کورٹ میں مبینہ طور پر ایک خاتون وکیل پیش ہوئی تھیں، جنہوں نے اپنا نام سید عینین قادری بتایا تھا اور گھریلو تشدد سے جڑے ایک معاملہ میں درخواست گزار کی طرف سے پیش ہو کر اس کیس کو خارج کرنے کی درخواست کی۔ اس دوران وہ کورٹ روم میں وکیل کے لباس میں تھیں لیکن اپنے چہرے کو نقاب سے ڈھانپ رکھا تھا۔ اس وقت جسٹس راہول بھارتی کیس کی سماعت کر رہے تھے۔ جسٹس بھارتی نے تب اس خاتون وکیل سے چہرے سے نقاب ہٹانے کو کہا’ لیکن قادری نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ خاتون وکیل نے زور دے کر کہا کہ چہرہ ڈھانپنا اس کا بنیادی حق ہے اور عدالت اسے زبردستی ایسا کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتی۔
اس کے بعد جسٹس بھارتی نے اس درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ کیس میں پیروی کے لیے پیش ہوئی خاتون کو وکیل کے طور پر نہ تو غور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی قواعد کے مطابق قبول کیا جا سکتا ہے کیونکہ چہرہ ڈھانپے ہونے کی صورت میں یہ طے نہیں ہو سکا کہ وہ خاتون کون ہے یا اس کی شناخت کیا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے آگے کی تاریخ دے دی اور رجسٹرار جنرل سے بی سی آئی کے قواعد کے تحت یہ تصدیق کرنے کو کہا کہ کیا ایسا کوئی ضابطہ ہے جس کے تحت خاتون وکیل چہرہ ڈھانپ کر پیش ہو سکیں اور کیس کی پیروی کر سکیں۔
اب رجسٹرار جنرل نے بی سی آئی کے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی ضابطہ نہیں ہے اور تمام وکلاء کو ایک خاص لباس میں کورٹ روم میں پیش ہونے کا اصول ہے۔ تاہم، بعد میں ایک اور وکیل قادری کی جگہ درخواست گزار کی پیروی کرنے پیش ہوا لیکن عدالت نے آگے کی تاریخ دے دی۔ اب نئی جج جسٹس موکش کھجوریہ کاظمی نے اپنے حکم میں بی سی آئی کے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ کوئی بھی خاتون وکیل چہرہ ڈھانپ کر یا نقاب پہن کر یا برقعہ میں کورٹ روم میں پیش نہیں ہو سکتی۔