اویسی کی بات صحیح ہے، آدھے ہندو تو ایک جھٹکے میں ہی ختم ہو جائیں گے: راجا بھیا

پریاگ راج ۔ 17؍ جنوری ۔ (اردو لائیو): حیدرآباد کے ایک لیڈر نے کہا کہ پولیس ہٹا دو تو 15 منٹ میں پتہ چل جائے گا۔ ایسا نہیں لگتا کہ اگر ہم سنجیدگی سے سوچیں تو کافی حد تک ان کی بات صحیح ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو تقریباً آدھے ہندو ایک جھٹکے میں صاف ہو جائیں گے۔ آخر ہمارے پاس ہے کیا؟ نہ تو ہم نسل بڑھا رہے ہیں اور نہ ہتھیار جمع کر رہے ہیں۔ کنڈا کے ایم ایل اے راجا بھیا نے مہاکمبھ میں یہ بات کہی۔ انہوں نے دیویہ پریم سیوا مشن کی طرف سے منعقد پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہندو سماج کو بہت سی برائیاں ختم کرنی ہوں گی۔ اس کے علاوہ اپنے وجود کے لیے بھی کوششیں کرنی ہوں گی۔
راجا بھیا نے کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ شاستروں (صحیفوں) سے حفاظت نہیں ہو سکتی۔ ثقافتوں کی حفاظت کے لیے ہتھیار ضروری ہیں۔ تکشیلا ختم نہیں ہوتا۔ ایک لٹیرا نے نالندہ کو آگ کے حوالے کر دیا۔ مہینوں تک وہاں کتابیں جلتی رہیں۔ ہمارے پربھو نے جب جب اوتار لیا تو انہوں نے ہتھیار اٹھائے۔ بھگوان رام کو جب ونواس ہوا تو وہ سب کچھ چھوڑ گئے، لیکن اپنے ہتھیار ساتھ لے کر گئے۔ ہم ماں کی پوجا کرتے ہیں تو وہ بھی مسلح رہتی ہیں۔ ہنومان جی کے ہاتھ سے گدا نہیں چھوٹی اور شیو جی کے ہاتھ میں ترشول ہمیشہ رہتا ہے۔ صحیفے کہتے ہیں کہ کب کس کا استعمال کریں، لیکن یہ نہیں کہتے کہ ہتھیار چھوڑ دیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ہندو کر کیا رہے ہیں۔ وہ نہ اپنا نسب بڑھا رہے ہیں اور نہ ہتھیار ان کے پاس ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مورتی وسرجن پر بھی حملے ہوتے ہیں۔ ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ہندوستان میں کسی نے بھی پناہ مانگی تو اسے ملی۔ ہماری یہ شرط تو نہیں تھی کہ مذہب بدل لو، تبھی ایسا ہوگا۔ ہندوستان میں مسلمان، یہودی اور تبت کے لوگوں کو بھی جگہ دی گئی۔ کسی بھی ہندوستانی کو اس پر اعتراض نہیں تھا۔ لیکن مسئلہ تب شروع ہوتا ہے، جب آپ کہیں کہ جو میرا رب ہے، اسی کو ماننا ہوگا۔ ایسا نہیں کروگے تو مارے جاؤگے، حملے ہوں گے اور دہشت گردی کے دھماکے ہوں گے۔ یہ حملے چاہے کاشی، پریاگ، اکشر دھام میں ہوں یا پھر ہندوستان کی پارلیمنٹ میں ہوں۔
جنستا دل کے لیڈر نے کہا کہ یہ ہر کوئی مانے گا کہ جتنی زیادہ لوٹ مار، عصمت دری اور قتل ہندوؤں کے ساتھ مذہب کے نام پر ہوئے، اتنے کسی اور کے ساتھ نہیں ہوئے۔ ہم نے ہتھیار چھوڑے اور طبقات اور ذات پات کے نام پر بانٹ دیے گئے۔
مہاکمبھ میں راجا بھیا نے کہا کہ یہ بات صحیح ہے کہ سناتن سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ جو بھی مذہب اور فرقے آئے، وہ سناتن کے بعد آئے تھے۔ سناتن ایسا دھرم ہے کہ اس میں دیوتاؤں نے اوتار لیے۔ انہوں نے کہا کہ کمبھ میں سناتن کے جھنڈا بردار آتے ہیں۔ اب بادشاہت نہیں ہے، لیکن جب ایسا نظام نہیں تھا تو سبھی راجاؤں کے ماتحت آتے تھے۔ یہاں وہ اپنے مسائل کے بارے میں بات کرتے تھے اور سنتوں سے رہنمائی لے کر اپنی ریاستوں میں فلاحی اسکیمیں لاتے تھے۔ یہی کمبھ کا اصلی امرت ہوا کرتا تھا۔ اس دوران انہوں نے شیواجی کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں بہت سے لوگوں نے اپنے سلطنت کو بچانے اورحفاظت کرنے کے لیے لڑائی لڑی، لیکن شیواجی ایسے تھے، جنہوں نے ہندوی سوراجیہ قائم کیا۔ ان سے تحریک لینے کی ضرورت ہے۔
راجا بھیا نے کہا کہ میں یہ مانتا ہوں کہ اسلام سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ ایمانداری سے سوچیں کہ کیا ہمارے پاس بھی اپنے مذہب کو لے کر اتنا ہی جوش ہے؟ وہ مسجد جاتے ہیں تو ان کی عبادت میں یہ بات رہتی ہے کہ اسلام کیسے بڑھے۔ انہوں نے ہتھیار رکھنے کو ضروری بتایا اور کہا کہ آج اگر ملک محفوظ ہے تو فوج کی وجہہ سے ہے۔ یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم قدیم ملک ہے اور ہم بہت باشعور ہیں۔ آج دیکھیں کہ اسرائیل اگر وجود بچائے ہوئے ہے تو وہ اپنے ہتھیاروں کے بل بوتے پر ہے۔ ہمارے یہاں ناگا اکھاڑے ہتھیاروں کی بنیاد پر قائم کئے گئے تھے۔ اورنگ زیب نے جب کاشی وشواناتھ مندر پر حملہ کرایا تو ناگا سادھوؤں نے ناکام بنا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر 5 سال بعد انہوں نے مندر توڑ دیا۔