مدارس کی سرکاری فنڈنگ بند کرنے قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی ریاستوں کو سفارش

نئی دہلی ۔ 12؍ اکٹوبر ۔ (اردو لائیو): قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (این سی پی سی آر یعنی نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس) نے ایک بار پھر مدارس میں دی جانے والی تعلیم اور ان کیلئے مختص سرکاری فنڈنگ پر سوالات اٹھائے ہیں۔ این سی پی سی آر نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوق کے چیف سکریٹریز کو ایک خط لکھ کر سفارش کی ہے کہ مدرسہ بورڈس کو دی جانے والی سرکاری فنڈنگ بند کردی جائے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ مدارس میں بچوں کو بنیادی تعلیم فراہم نہیں کی جاتی اور وہاں کا تعلیم نظام زیادہ تر مذہبی تعلیم پر کرکوز ہے۔
قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی 3 سفارشات:
(1) مدرسوں اور مدرسہ بورڈز کو ریاست کی طرف سے دی جانے والی فنڈنگ روک دی جائے۔
(2) مدرسوں سے غیر مسلم بچوں کو ہٹایا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 28 کے مطابق، والدین کی مرضی کے بغیر کسی بچے کو مذہبی تعلیم نہیں دی جاسکتی۔
(3) ایک ادارے کے اندر مذہبی اور باضابطہ تعلیم ایک ساتھ نہیں دی جا سکتی۔
سماج وادی کے سربراہ اکھلیش یادونے کمیشن کی رپورٹ پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہاکہ ‘‘آئین سے بنی ہر چیز کو یہ پلٹنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نفرت پر سیاست کرنا چاہتے ہیں، جو امتیاز پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مذہب’ ذاتوں کو لڑا کر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔’’
سپریم کورٹ نے 5 اپریل 2024 کو ‘‘یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004′ کو غیر آئینی قرار دینے والے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مرکز اور یوپی حکومت سے جواب بھی طلب کیا تھا۔ کورٹ کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے 17 لاکھ طلباء پر اثر پڑے گا۔ طلباء کو دوسرے اسکول میں ٹرانسفر کرنے کا حکم دینا ٹھیک نہیں ہے۔
اصل میں 22 مارچ کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے یوپی مدرسہ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ کورٹ نے کہا تھا کہ یہ سیکولرزم کے اصول کے خلاف ہے۔ جمعہ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے مدرسہ بورڈ کی درخواست پر سماعت کی۔
بنچ نے کہا کہ ہائی کورٹ اولین نظر میں صحیح نہیں ہے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ مدرسہ ایکٹ سیکولرزم کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ یوپی حکومت نے بھی ہائی کورٹ میں مدرسہ ایکٹ کا دفاع کیا تھا۔ اس کے جواب میں یوپی حکومت کی طرف سے اے ایس جی کے ایم نٹراج نے کہاکہ ‘‘ہم نے ہائی کورٹ میں ضرور اس ایکٹ کا دفاع کیا تھا، مگر کورٹ نے اس ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے بھی کورٹ کے فیصلے کو قبول کر لیا ہے۔’’
ایکٹ کے خلاف 2012 میں پہلی بار داخل ہوئی تھی درخواست
مدرسہ ایکٹ کے خلاف سب سے پہلے 2012 میں دارالعلوم واسیہ مدرسہ کے منیجر سراج الحق نے درخواست داخل کی تھی۔ پھر 2014 میں مائنارٹی ویلفیئر لکھنؤ کے سیکریٹری عبدالعزیز، 2019 میں لکھنؤ کے محمد جاوید نے درخواست دائر کی تھی۔
اس کے بعد 2020 میں رائج مصطفی نے دو درخواستیں داخل کی تھیں۔ 2023 میں انشومن سنگھ راٹھور نے درخواست دائر کی۔ تمام معاملات کی نوعیت ایک جیسی تھی۔ اس لیے ہائی کورٹ نے تمام درخواستوں کو ضم کر دیا۔
یوپی مدرسہ بورڈ ایجوکیشن ایکٹ 2004 اتر پردیش حکومت کے ذریعہ پاس کیا گیا قانون تھا، جسے ریاست میں مدرسوں کی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت مدرسوں کو کم از کم معیار مکمل کرنے پر بورڈ سے منظوری مل جاتی تھی۔



