ہندوستان

ہریانہ: اسکول کے طلباء نے ٹیچر کی کرسی کے نیچے بم رکھ کر ریموٹ سے دھماکہ کردیا۔ یوٹیوب سے سیکھا تھا بم بنانے کا طریقہ

ہسیار’ ہریانہ ۔ 17؍ نومبر ۔ (اردو لائیو): ہریانہ کے ایک اسکول میں 12ویں کلاس کے طلباء کے ایک گروپ نے یوٹیوب پر بم بنانے کا طریقہ سیکھ کر بم بنا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے شرارت کرنے کے لیے اس بم کو اسکول کے سائنس کی ٹیچر کی کرسی کے نیچے لگا دیا۔ انہوں نے ریموٹ کی مدد سے بم کو دھماکے سے اڑا دیا۔ خوش قسمتی سے، ٹیچر بال بال بچ گئیں اور انہیں کوئی زخم نہیں آیا۔ تاہم، اس واقعہ کے بعد ان طلباء کو ایک ہفتہ کے لیے اسکول سے معطل کر دیا گیا ہے۔

کچھ طلباء نے خاتون ٹیچر سے ڈانٹ کھانے کے بعد بدلہ لینے کا سوچا۔ ایک طالب علم نے ان کی کرسی کے نیچے بم نما پٹاخہ رکھا، جبکہ دوسرے طالب علم نے ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ اسے فعال کر دیا۔ اس کے بعد یہ پھٹ گیا۔ طلباء نے بم بنانے کا طریقہ یوٹیوب سے سیکھا تھا اور اسے ریموٹ کنٹرول سے آپریٹ کیا تھا۔

محکمہ تعلیم کی کارروائی

ہسار ضلع کے محکمہ تعلیم نے اس خطرناک شرارت پر سخت کارروائی کی ہے۔ تمام 13 طلباء کو ایک ہفتہ کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد تعلیمی محکمہ کے افسران اسکول پہنچے اور واقعہ کی سنجیدگی سے تحقیقات شروع کیں۔ محکمہ کے افسران کے مطابق اس واقعہ کے بعد یہ بھی بحث ہوئی تھی کہ ان طلباء کو اسکول سے نکال دیا جائے، لیکن ان کے والدین نے معافی مانگتے ہوئے یہ تحریری بیان دیا کہ وہ مستقبل میں اس طرح کا کام نہیں کریں گے۔

گاؤں میں پنچایت کا اجلاس

اس واقعہ کے بعد متعلقہ گاؤں میں پنچایت کا اجلاس بھی بلایا گیا۔ بچوں کی اس شرارت کے بارے میں گفتگو کی گئی۔ پنچایت کے دوران یہ معلومات سامنے آئیں کہ کلاس کے 15 طلباء میں سے 13 طلباء اس میں شامل تھے۔ وہ اس کے بارے میں جانتے تھے۔ تمام طلباء کو ایک ہفتہ کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔ یہ سوچا جا رہا ہے کہ اس پر مزید کارروائی کی جائے یا نہیں۔

ٹیچر نے کیا معاف

ضلعی تعلیمی افسر نریش مہتا نے بتایا کہ معلمہ نے ان طلباء کو معاف کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ بچے ایک ماڈل بنا کر اسے پیش کرتے تو ہم ان کا احترام کرتے، لیکن اب یہ معاملہ وارننگ دینے کے ساتھ سلجھا لیا گیا ہے۔ ان بچوں نے یہ سب یوٹیوب سے سیکھا تھا۔

اس واقعہ نے اسکول انتظامیہ اور تعلیمی محکمہ کے لیے ایک بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ آن لائن مواد بچوں پر کس قسم کا اثر ڈال سکتا ہے اور اسے کس حد تک کنٹرول کیا جانا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button