غزہ۔ 23؍ ڈسمبر ۔ (پی آئی سی): غزہ میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کے لیے آٹے کے تھیلے کا حصول جان جوکھوں کا کام ہے۔ جان پر کھیل کر اگر ایک تھیلا مل بھی جائے تو اس کی قیمت کا تصور بھی محال ہے۔ غزہ پر غاصب صہیونی ریاست کی طرف سے مسلط کی گئی ناکہ بندی کے باعث باہر سے آٹے کی آمد تقریبا بند ہے اور اگر وہاں کسی کے پاس آٹا ہے تو اس کے ایک تھیلے کی قیمت تین سو امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
اسرائیل کی جانب سے 14 ماہ سے نسل کشی کا نشانہ بننے والی غزہ پٹی پر مسلط کردہ محاصرے میں سختی اور قابض امدادی ٹرکوں اور نوجوانوں کو نشانہ بنانے کے ان گنت واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ غاصب فوج پہلے تو غزہ میں امداد داخل نہیں ہونے دیتی اور اگر داخل ہوجائے تو یہودی ڈاکوؤں کی مدد کرکے سامان کی لوٹ مار کرادیتی ہے۔
غزہ میں آٹے کا ایک تھیلا بھی خون مانگتا ہے۔ آٹے کے حصول کے دوران قابض فوج نے کئی بار نہتے بھوکے شہریوں پر بمباری کی۔ اس بمباری کے باعث سینکڑوں فلسطینیوں کی شہادت ہوئی اور آٹے کے تھیلے خون سے بھر گئے۔
کئی فلسطینی اپنے بچوں کے لیے آٹا لینے آئے تو امدادی ٹرکوں پر بمباری کے دوران ان کی لاشیں واپس گئیں۔ اس کے بعد بچ جانے والی امداد یہودی ڈاکولوٹ لیتے ہیں قابض صہیونی فوج ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
قحط مسلط کرنے کی غرض سے محاصرہ
غزہ کے شہری محی الدین مطر نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ اس کے پاس دو ماہ قبل آٹا ختم ہو گیا تھا۔ اس نے تصدیق کی کہ اس کے پانچ بچوں نے دو ماہ سے روٹی نہیں کھائی،اس نے مزید کہا کہ ‘‘آٹے کے ایک تھیلے کی قیمت 300 ڈالر ہے۔ کوئی اتنا مہنگا آٹا کیسے خرید سکتا ہے۔ میں اسے نہیں خرید سکتا۔ میرے بچوں سمیر، سمیرہ، زینہ، محمد اور سیلا کو سمجھ نہیں آتی کہ ان کے اردگرد کیا ہو رہا ہے، لیکن ان کے خیال میں روٹی زندگی میں لگژری چیز بن چکی ہے۔ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں آٹے کا تھیلا خواب بن گیا ہے۔’’
گذشتہ اکٹوبر سے قابض اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اپنا محاصرہ سخت کر دیا ہے۔ غزہ کی پٹی میں ٹرکوں کے داخلے کو روک دیا ہے سوائے ایک چھوٹی سی تعداد کے ٹرک داخل ہوتے ہیں وہ یہودی گروہوں اور ڈاکوؤں کی طرف سے لوٹ لیے جاتے ہیں۔ لوگ انتہائی بھوک کی حالت میں خاص طور پر اس کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں جہاں لاکھوں بے گھر افراد جنگ، بے گھر ہونے اور خیموں کی زندگی میں ان گنت مصائب سے دوچار ہیں۔
آٹے کی تلاش کا ایک کٹھن سفر
شہریوں نے ایسے ذرائع کی تلاش شروع کر دی جہاں آٹے کی مناسب قیمت ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو مشرق، مغرب، جنوب اور شمال میں آٹے کی تلاش میں سرگرداں دیکھا جاتا ہے۔
برطانوی اخبار فینانشیل ٹائمز نے کہا ہے کہ آٹے اور خوراک کی کمی غزہ میں بھوک کے بحران کو اس حد تک بڑھا رہی ہے کہ غزہ کی پٹی میں کچھ لوگ اپنے بچوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ نہ کھیلیں اور نہ ہی بھاگیں تاکہ انہیں بھوک نہ لگے اور وہ نڈھال نہ ہوں۔ انہیں دن میں صرف ایک وقت کا کھانا ملتا ہے۔قابض اسرائیلی ریاست کو واشنگٹن کی وارننگ اس مخمصہ کو حل کرنے میں مدد نہیں کرسکی۔
اخبار نے تصدیق کی ہے کہ غزہ کے لیے امداد اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، انسانی امداد پہنچانے کے عمل میں قابض حکام کی ہٹ دھرمی اور قابض فوج کے تحفظ میں اس کی لوٹ مار کے ساتھ اس کی حفاظت کرنے والے کارکنوں کو شہید کیے جانے سے آٹے کا حصول اور رسائی اور بھی مشکل ہوچکی ہے۔
امدادی کارکنوں کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو گا جب تک غزہ کی طرف جانے والی تمام گذرگاہوں کو کھول نہیں دیا جاتا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 12 ڈسمبر تک صرف 1700 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے تھے۔ جو ابھی تک جنگ سے پہلے کی سطح سے بہت کم ہیں۔ آٹے کے فقدان نے بھوک کو بڑھا دیا، کیونکہ اس کی قیمتیں 162 ڈالر سے تین سو ڈالر فی تھیلہ تک پہنچ گئیں۔
یہ بحران غزہ کے لوگوں اور خود امدادی کارکنوں کو بھی متاثر کر رہا ہے، جو کم سے کم خوراک پر بھی زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
فینانشیل ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ وسطی اور جنوبی غزہ کے علاقے، جہاں اب زیادہ تر بے گھر لوگ رہتے ہیں، بڑھتی ہوئی بھوک کا شکار ہیں، کیونکہ مایوس فلسطینیوں نے بیکریوں پر حملہ کیا۔ 29؍ نومبر وسطی غزہ میں کھانا لینے کے لیے قطار میں کھڑے 3 افراد م گھٹنے سے فوت ہوگئے۔
وہ آٹا لینے گئے مگر واپس نہیں آئے
رفح سے خان یونس تک اپنے خاندان کے ساتھ بے گھر ہونے والے شہری عبدالرؤف الفرا اپنے دو بیٹوں کے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جنہوں نے تقریباً ایک ہفتہ قبل رفح سے آٹا لینے کی کوشش کی لیکن ان کا کوئی پتا نہیں چل سکا۔
عبدالرؤف کو اپنے دونوں بیٹوں کی طرف سے آخری بات ان کے بیٹے محمد کی طرف سے موصول ہوئی جس دن وہ رفح میں آٹا تلاش کرنے نکلے تھے۔ محمد نے بتایا تھا کہ وہ زخمی ہو گئے تھے جبکہ ان کا بھائی خالد شہید ہوگیا۔ سب سے بڑا بیٹا خالد خان یونس کے مرکز میں ایک گھر میں ان کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ رفح شہر میں مناسب قیمت میں آٹے کی تلاش میں گئے مگر واپس نہیں آئے۔
شہری عبدالرؤف نے ڈر کے مارے اپنے دونوں بیٹوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن اس کے بیٹے محمد نے اسے یقین دلایا کہ ایک تاجر رفح کے شمال میں النصر کے علاقہ میں اس کی دکان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اس میں بڑی مقدار میں آٹا موجود ہے۔
الفرا نے کہا کہ‘‘محمد کے اصرار اور مجھے ان کی یقین دہانی کی روشنی میں کہ وہ علاقہ جہاں آٹا ملنے کی توقع تھی وہ خطرناک نہیں ہے حالانکہ یہ انخلاء کے علاقوں میں ہے۔ کچھ رہائشی ہیں جو اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ معمول کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں میں نے ان کے جانے پر رضامندی ظاہر کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘میرا بیٹا خالد اپنے بھائی کے پاس گیا اور وہ آٹا لینے کے لیے رفح شہر گئے، لیکن ان کی واپسی میں تاخیر نے مجھے بہت پریشان کر دیا۔ میں نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور ہمیں اس کی خبر ملی رفح سے کچھ پڑوسیوں کی واپسی، لیکن انہیں میرے بیٹوں کی کوئی خبر نہیں تھی۔
اس نے بتایا کہ واپس آنے والوں میں سے ایک نے اسے تصدیق کی کہ اس نے اس کے دو بیٹوں کو دیکھا ہے۔ وہ ایک ساتھ اس اسٹور پر پہنچے جس میں آٹا تھا، مگر اس وقت آٹا ختم ہوگیا تھا تاہم، دکان کے مالک نے اپنے ایک رشتہ دار کا بتایا جس نے گھر میں آٹا زخیرہ کررکھا تھا۔
وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب محمد نے مجھے بتایا کہ وہ زخمی ہو گیا ہے اور اس کا بھائی خالد شہید ہو گیا ہے تو میری حالت غیر ہوگئی۔مجھے نہیں معلوم کہ میں ہوش کھو بیٹھا تھا۔
الفرا نے کہا کہ اس کے بعد زخمی بیٹے سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ ایک شخص نے کہا کہ اس نے رفح میں چار لوگوں کی لاشیں دیکھی تھیں۔ اس کے دو بیٹے ان میں شامل ہو سکتے ہیں۔
اس نے کہا کہ محمد نے مجھے جو کچھ بتایا، اس کے باوجود میں اس امید پر قائم ہوں، چاہے وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ ان میں سے کم از کم ایک زندہ میرے پاس واپس آئے گا۔ میں نے اس وقت سے کئی بار ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کے فون بند ہیں۔ مجھے ابھی تک ان کے بارے میں یقین سے کچھ معلوم نہیں۔
الفرا نے مزید کہا کہ دو روز قبل ہلال احمر اور سول ڈیفنس نے رفح کے مختلف علاقوں سے لاشیں برآمد کیں، انہوں نے مجھے اپنے دو بیٹوں کی شناخت کے لیے بلایا، لیکن میں ان میں اپنے بیٹوں کی شناخت نہیں کرسکا۔اس نے میرے اندر بچوں میں سے ایک کے زندہ ہونے کی امید پھر پیدا کی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ان کے بڑے بیٹے خالد کے تین بچے ہیں جن میں سے دو بچے اور ایک بچی ہے۔ ان میں سے بڑے کی عمر دس سال ہے جب کہ سب سے چھوٹے بیٹے محمد کے دو بیٹے ہیں۔
آٹے کے حصول کے دوران قتل عام
مقامی ذرائع نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نمائندے کو بتایا کہ کہ رفح شہر میں درجنوں فلسطینی آٹے کی تلاش کے لیے گئے مگر اس کے بعد ان کا کوئی پتا نہیں چل سکا۔ ان میں سے متعدد قابض اسرائیلی فوج کی فائرنگ کی لپیٹ میں آگئے اور شہید ہوگئے۔
شہری ربیع عبدالرحمٰن نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ اس نے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے رفح کے علاقوں میں آٹا تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس کا کہنا ہے کہ جب وہ اور اس کے دوست شہر کے قریب ترین مقام پر پہنچے تو ان پر شہر کے مغرب میں کچھ علاقوں میں تعینات قابض فوج کی طرف سے شدید گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں ان میں سے ایک شخص زخمی ہو گیا اور باقی نے آٹے کے بغیر واپس لوٹنے پر مجبور ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مشکل کے باوجود آٹے کے بغیر واپس آنے اور اپنے بھوکے بچوں کے لیے مزید شہید نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا خاندان جس میں ان کی والدہ کے علاوہ 6 افراد شامل ہیں، دن میں صرف ایک وقت کے لیے کچھ چاول اور پاستا کھاتے ہیں۔ چاکلیٹ اور کینڈی پر گذارہ کرتے ہیں۔ روٹی ان کا خواب بن گیا ہے۔