بلڈوزر کارروائی غیر آئینی’ افسران جج نہیں بن سکتے۔ سپریم کورٹ نے بلڈوزر ایکشن پر رہنما خطوط جاری کئے

نئی دہلی ۔ 13؍ نومبر ۔ (اردو لائیو): اتر پردیش، اتراکھنڈ، گجرات سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں بلڈوزر ایکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی خاندان کے لیے اپنا گھر خواب ہوتا ہے اور سالوں کی محنت سے بنتا ہے۔ اس لیے کسی کا گھر صرف اس لیے نہیں گرایا جا سکتا کہ وہ کسی معاملے میں ملزم یا پھر مجرم ہے۔ بنچ نے کہا کہ انتظامیہ جج نہیں بن سکتا اور صرف اس لیے کسی کی پراپرٹی نہیں ڈھائی جا سکتی کہ متعلقہ شخص ملزم یا مجرم ہے۔ جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن کی بنچ نے کہا کہ بدلہ لینے کے لیے بلڈوزر ایکشن نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے کہا کہ گھر بنیادی حق ہے اور اُسے قواعد پر عمل کئے بغیر چھینا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ من مانی ایکشن کی بجائے قوانین پر عمل کیا جائے۔ بنچ نے کہاکہ عوام کا حکومت پر اعتماد اس بات پر منحصر ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ کتنی جوابدہ ہے اور ان کے حقوق کا کتنا تحفظ کرتی ہے۔ ان کی جائیدادوں کا بھی تحفظ ہونا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ انتظامیہ جج نہیں بن سکتا اور بغیر قانونی عمل کی پیروی کیے بلڈوزر ایکشن جیسے اقدامات نہیں کیے جا سکتے۔ یہی نہیں، آئین کے آرٹیکل 142 کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بلڈوزر ایکشن کے حوالے سے ملک بھر کے لیے رہنما خطوط طے کیے ہیں۔
جانیں- عدالت نے بلڈوزر ایکشن پر کیا رہنما خطوط طے کیئے ہیں:
- عدالت نے کہا کہ بغیر تحریری نوٹس دیے کسی کی جائیداد نہیں ڈھائی جا سکتی۔ یہ نوٹس کم از کم 15 دن پہلے ملنا چاہیے۔ اسے رجسٹرڈ ڈاک سے بھیجا جائے اور متعلقہ عمارت پر بھی چسپاں کیا جائے۔ یہ بھی بتایا جائے کہ عمارت کو کیوں گرایا جا رہا ہے۔ اُسی نوٹس میں یہ بھی بتانا ہوگا کہ اس ایکشن سے بچاؤ کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔
- کسی بھی جائیداد پر بلڈوزر ایکشن سے پہلے اس کے مالک کو ذاتی طور پر سنوائی کا موقع دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ افسران کو حکم کے بارے میں زبانی طور پر اطلاع دینی ہوگی۔ بلڈوزر ایکشن کی ویڈیوگرافی بھی کی جائے گی تاکہ یہ ثبوت رہے کہ عدالت کی رہنما ہدایات کی پیروی کی گئی ہے یا نہیں۔
- عدالت نے کہا کہ ڈی ایم کو یہ دیکھنا ہوگا کہ بلڈوزر ایکشن پر متعلقہ قوانین پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں۔ انہیں یہ طے کرنا ہوگا کہ وہی عمارتیں گرائی جائیں، جو غیر قانونی ہیں اور اس میں بھی قوانین پر عمل ہو۔ قوانین پر عمل کیے بغیر گھر یا عمارت گرانے والے افسران کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ توہین عدالت کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں، جائیداد گرنے سے ہوئے نقصان کی تلافی بھی افسران سے کرائی جا سکتی ہے۔
- جسٹس بی آر گوائی نے کہا کہ قانون کے تحت تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ کسی کا بھی گھر گرایا جانا اس کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ عدالت میں کچھ رپورٹس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک جرم پر کسی کا گھر گرا دیا گیا، لیکن ویسا ہی جرم کرنے پر دوسرے کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کے ساتھ ایسا کوئی ایکشن نہیں ہوا۔
- عدالت نے کہا کہ کسی غیر قانونی تعمیر کو گرانا ہے تو اس میں تعصب نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ملزم کے پس منظر یا پھر اس کے کمیونٹی کو دیکھتے ہوئے ایکشن نہیں لیا جانا چاہیے۔
- جسٹس گوائی نے کہا کہ یہ طے ہونا چاہیے کہ کسی بھی ملزم کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ انتظامیہ کسی بھی شخص کو مجرم نہیں ٹھہرا سکتا اور اس کی بنیاد پر گھر نہیں گرایا جا سکتا۔ ایسے اقدامات براہ راست قانون کی روح پر حملہ کرتے ہیں۔



