پونے میں بی جے پی ایم پی نے سبز رنگ کی دیوار کو بنایا ‘‘بھگوا’’۔ شرانگیز اقدام پر اپوزیشن پارٹیوں کی تنقید
پونے ۔ 30 ؍ ڈسمبر ۔ (اردو لائیو): بی جے پی ایم پی میدھا کلکرنی نے مہاراشٹرا میں ایک نیا ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ میدھا کلکرنی نے گذشتہ ہفتہ (28؍ ڈسمبر) کے روز پارٹی کارکنان کے ساتھ مل کر شہر میں ایک سبز رنگ کی دیوار کو بھگوا رنگ سے رنگ دیا۔ اس کے بعد سیاسی حلقوں میں الزامات اور جوابی الزامات کا دور شروع ہو گیا۔ بی جے پی ایم پی کے اس شر انگیز اقدام پر اپوزیشن پارٹیاں تنقید کررہی ہیں۔ وہیں بی جے پی کی راجیہ سبھا ایم پی میدھا کلکرنی نے دیوار کو رنگنے کے پیچھے یہ دلیل دی ہے کہ دیوار کو جان بوجھ کر ہرا کر دیا گیا تھا جو کہ ایک سازش کا حصہ ہے۔
میدھا کلکرنی نے ہفتہ کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ کر کے اس بات کی معلومات شیئر کی تھیں۔ انہوں نے اس پوسٹ کے ساتھ دیوار کو رنگنے کی کچھ تصاویر بھی شیئر کیں۔ انہوں نے پوسٹ میں لکھا کہ کل ایک واٹس ایپ میسج وائرل ہوا کہ سدشیو پیتھ میں گیانپربودھنی اسکول کے ساتھ والی گلی کو ہرے رنگ سے رنگا گیا ہے اور وہاں مالا، پھول اور اگربتی جلائی گئی ہے۔ میں آج اس کی جانچ کرنے گئی تھی۔ میں نے سنگرام دھولے پاٹل، سنکیت مہندلے، یشپال جادھو کے ساتھ مل کر دیوار کو بھگوا بنایا۔ ہرے رنگ پر بھگوا رنگ لگانا دلچسپ تھا۔
بی جے پی ایم پی نے اسے ایک سازش کا حصہ بتاتے ہوئے کہا کہ صرف پونے میں ہی نہیں بلکہ مہاراشٹرا سمیت کئی دیگر جگہوں پر بھی حال ہی میں اس قسم کی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ یہ مقامات پہلے سائز میں چھوٹے تھے، بعد میں اچانک ان پر قبضہ کر لیا گیا۔ آئیے ہم چوکنا رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری سبھی سے ایک ہی درخواست ہے کہ ایک باشعور ہندو کے طور پر آئیے ہم اپنے آس پاس جو کچھ ہو رہا ہے اس پر توجہ دیں اور ایکشن لیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنا فون نمبر بھی شیئر کیا۔
میدھا کلکرنی کے اس ٹویٹ کے سامنے آنے کے بعد کافی ہنگامہ ہوا۔ ادھو سینا نے اس قدم پر کئی سوالات اٹھائے اور اسے بچکانہ بتایا۔ شیو سینا (یو بی ٹی) کی سشما اندھارے نے بی جے پی کی ترجیحات پر سوال اٹھائے ہیں۔ اندھارے نے پوچھا کہ کیا پونے میں بی جے پی کارکنان یا میدھا کلکرنی نے خواتین کی حفاظت جیسے مسائل کے لیے ویسی ہی فکر دکھائی، جیسی انہوں نے دیوار پر پینٹنگ کرنے کے لیے دکھائی؟ سشما اندھارے نے کہا کہ اگر عوامی نمائندے ایسی بچکانہ حرکتیں کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سیاست چھوڑ دینی چاہیے اور مذہبی کاموں پر توجہ دینی چاہیے۔