اتر پردیش

بہرائچ تشدد: مشتبہ ملزمین کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کی تیاریاں شروع۔ 23 گھروں پر نوٹسیں چسپاں کردی گئیں

بہرائچ، یوپی ۔ 18؍اکتوبر (اردو لائیو): بہرائچ کے مہاراج گنج علاقے میں حالیہ تشدد کے بعد یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے مشتبہ ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ جمعرات کے روز ہاف انکاؤنٹر کے بعد، اب حکومت کی جانب سے ملزمان کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جس سے مقامی مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی ہے۔

تشدد کے اس معاملے میں یوگی ادتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پولیس اور انتظامیہ کو متحرک کر دیا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ نے مشتبہ ملزمان کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کی تیاری شروع کر دی ہے، اور اس سلسلے میں 23 گھروں کے باہر نوٹس بھی چسپاں کر دیے گئے ہیں۔ ان گھروں میں عبدالحمید نامی شخص کا گھر بھی شامل ہے، جو اس تشدد کے ایک اہم ملزم قرار دئے جارہے ہیں۔

انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ نوٹسیں ان مکانات کے باہر چسپاں کی گئی ہیں جو سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ انتظامیہ نے مکینوں کو تین دن کی مہلت دی ہے کہ وہ اپنی تعمیرات کو ختم کر کے سرکاری زمین سے قبضہ ہٹا لیں۔ بصورت دیگر، بلڈوزر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

بلڈوزر کارروائی یوگی حکومت کا مشتبہ ملزمین کے خلاف ایک بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔

واضح رہے کہ بہرائچ کے مہاراج گنج علاقے میں گزشتہ اتوار کو درگا پوجا وسرجن کے دوران تشدد کے واقعات پیش آئے تھے۔ ان واقعات کے دوران مقامی ہندو اور مسلمان کمیونٹی کے درمیان شدید تصادم ہوا، جس میں مذہبی جذبات بھڑکائے گئے۔ تشدد کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جن میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح شدت پسند عناصر نے ایک مسلمان کے گھر پر چڑھ کر ہرے رنگ کا جھنڈا نکال پھینکا اور اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لہرایا۔

ان ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا گیا کہ شدت پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے اور ڈی جے پر گانے بجائے گئے، جن کا مقصد دونوں فرقوں کے درمیان مزید اشتعال پیدا کرنا تھا۔

اس پورے واقعہ کے باوجود مین اسٹریم میڈیا، جو کہ ‘‘گودی میڈیا’’ کے نام سے بھی مشہور ہے، نے صرف مسلمانوں کو اس تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ہندوؤں کے اشتعال انگیز اقدامات کو نظر انداز کر کے ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس سے دونوں فرقوں کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

مقامی افراد نے بھی پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ یکطرفہ کارروائی کر رہی ہے اور صرف مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کر رہی ہے، جبکہ ہندو شدت پسندوں کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ یہ الزام اس وقت اور بھی زیادہ سنگین ہو جاتا ہے جب سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز دیکھنے کے بعد پورے ملک میں مسلمانوں کے درمیان خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔

بہرائچ کے اس تشدد کے واقعات اور حکومت کی جانب سے یکطرفہ کارروائی نے ملک بھر کے مسلمانوں میں گہری تشویش پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے، اور وہ انصاف کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر حکومت انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بہرائچ میں ہونے والے حالیہ تشدد اور اس کے بعد ہونے والی کارروائیوں نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کر دیا ہے کہ کس طرح مذہبی اور سیاسی کشیدگی کا استعمال کر کے فرقہ وارانہ بنیادوں پر عوام کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے بلڈوزر کارروائی اور مقامی پولیس کی یکطرفہ پالیسیوں پر عوام میں اور خاص طور پر مسلمانوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو سکے اور عوام کو فرقہ وارانہ کشیدگی سے نجات ملے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button