
مقبوضہ بیت المقدس ۔ 22؍ اکٹوبر ۔ (پی آئی سی): پیر (21؍ اکٹوبر) کے روز ایک بار پھر اسرائیلی فوج اور پولیس کی سخت سکیورٹی میں سینکڑوں یہودی آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا، جس سے ایک بار پھر امت مسلمہ کے مقدس مقامات کی بے حرمتی ہوئی۔ اسرائیل کی جانب سے یہ اقدامات مسلسل جارحیت اور مذہبی حقوق کی پامالی کی غمازی کرتے ہیں۔
دوسری جانب قابض اسرائیلی افواج نے غرب اردن کے تاریخی شہر الخلیل میں موجود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مسجد کو مکمل طور پر بند کر دیا اور فلسطینی مسلمانوں کو اذان اور نماز ادا کرنے سے روک دیا۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب یہودی آبادکاروں کی مسجد میں آمد متوقع تھی۔ فلسطینی عوام کو اذان دینے کی اجازت نہ دینے کی خبر نے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
بیت المقدس میں اسلامی اوقاف کے محکمہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پیر کے روز 1,780 یہودی آبادکاروں نے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولا۔ یہ واقعہ یہودی تعطیلات کے پانچویں دن پیش آیا، جب یہودی مذہبی تقریبات کے سلسلے میں مسلسل فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکالا جا رہا ہے۔
یہودیوں کی تعطیلات کے آغاز سے لے کر اب تک بیت المقدس میں موجود فلسطینی آبادی کو شہر سے بے دخل کرنے کی مہم جاری ہے۔ قابض اسرائیلی فوج نے بیت المقدس شہر کو مکمل طور پر ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے، اور ہر طرف فوجی چوکیاں اور ناکہ بندی کی جا رہی ہے، جس سے عام فلسطینی شہریوں کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے۔
ان حالات کے پیش نظر حماس کے رہنما ہارون ناصر نے مسجد اقصیٰ پر یہودی آبادکاروں کے حملوں کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ حملے صہیونی ریاست کی انتہا پسندانہ سازشوں کا حصہ ہیں، جن کا مقصد مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی تسلط کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی ریاست موجودہ حالات کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے مقدس مقامات پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ واقعات عالمی برادری کے سامنے ایک سنگین چیلنج ہیں، جو بار بار اسرائیلی جارحیت اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتی جا رہی ہے۔ فلسطینیوں کے حقوق کو روندنے اور مقدس مقامات کی بے حرمتی عالمی انصاف کے لئے سوالیہ نشان ہے۔



