موسمیاتی تبدیلی: ایک عالمی بحران اور ہماری ذمہ داری

از: ڈاکٹر سید حبیب امام قادری
موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا عالمی چیلنج بن چکا ہے، جو نہ صرف قدرتی وسائل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ انسانوں کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ بڑھتے ہوئے کاربن اخراجات، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، سمندری سطح کا بلند ہونا، اور قدرتی آفات کا تسلسل، یہ سب اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ہم نے ماحول کے ساتھ کھیلنے کی بھاری قیمت ادا کرنی شروع کر دی ہے۔ لیکن کیا ہم اس تباہی کو روک سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہمارے ہاتھ میں ہے۔سب سے پہلے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی صرف قدرتی عوامل کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہماری اپنی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم نے بے جا کاربن کے اخراجات، جنگلات کی بے رحمی سے کٹائی، اور صنعتی فضلے کی صحیح طریقے سے صفائی جیسے کاموں سے قدرتی توازن کو خراب کر دیا ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف ماحول پر پڑ رہے ہیں بلکہ انسانی زندگی پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے موسمیاتی حالات تبدیل ہو رہے ہیں، جو کہ قدرتی آفات جیسے سیلاب، طوفان اور خشک سالی کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے رویوں اور طرز زندگی میں تبدیلی لائیں۔ انفرادی سطح پر ہم کئی اقدامات کر سکتے ہیں، جیسے کہ توانائی کے موثر استعمال کو فروغ دینا، درختوں کی کاشت اور فضائی آلودگی کو کم کرنا۔ ان چھوٹے اقدامات کا مجموعہ بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔ حکومتیں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سخت قوانین اور پالیسیوں کا نفاذ کر کے اس مسئلے سے نمٹ سکتی ہیں۔ پائیدار توانائی کے ذرائع کا استعمال، صنعتی فضلے کی صفائی اور کاربن کے اخراجات کو کم کرنے کی کوششیں ان مسائل کا حل ہو سکتی ہیں۔اس کے علاوہ، عالمی سطح پر تعاون کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے، اور اس کا حل صرف ایک ملک کے اقدامات سے ممکن نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر حکومتوں، اداروں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ اس بحران کا مقابلہ کیا جا سکے۔ عالمی سطح پر نئے معاہدے، موسمیاتی فنڈز اور ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسے اقدامات اس جنگ کو جیتنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں نہ صرف اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے جو ہماری نسلوں کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زمین اور اپنے ماحول کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر اور محفوظ دنیا چھوڑ سکیں۔
کاربن اخراجات کا زیادہ تر حصہ امیر ممالک سے آ رہا ہے، لیکن ان کے منفی اثرات کا سامنا زیادہ تر غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک کو کرنا پڑ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے صنعتی ترقی اور توانائی کے بڑے ذرائع سے کاربن اخراجات میں اضافہ کیا ہے، جبکہ ان ممالک کی ماحولیاتی پالیسیوں میں اکثر غریب ممالک کی ضروریات اور مشکلات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس طرح، عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے نتائج غریب ممالک کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں، جہاں شدید موسمی حالات اور قدرتی آفات جیسے سیلاب، خشک سالی اور طوفان زیادہ شدت سے آ رہے ہیں (IPCC, 2021)۔2015 میں، پیرس معاہدے کے تحت عالمی سطح پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اس صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنا ضروری ہے۔ یہ معاہدہ ترقی یافتہ ممالک کے لیے خصوصی ذمہ داری ڈالتا ہے کیونکہ وہ تاریخی طور پر سب سے زیادہ کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہیں (UNFCCC, 2015)۔ اس معاہدے کے مطابق، امیر ممالک کو غریب ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مالی امداد فراہم کرنا ہے تاکہ ان کی معیشتوں اور ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔تاہم، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کے دوران ماحولیاتی مالیات کے حوالے سے مشکلات پیدا کیں اور پیرس معاہدے سے انخلا کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس قدم نے ماحولیاتی ماہرین اور عالمی رہنماوں کو مایوس کیا، کیونکہ اس سے عالمی سطح پر ماحولیاتی بحران کے حل کی کوششوں میں رکاوٹ آئی (New York Times, 2017)۔ ٹرمپ کا یہ موقف نہ صرف عالمی سیاست میں مشکلات پیدا کرتا ہے بلکہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔بین الاقوامی سطح پر ماحول کی حفاظت کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا بہت ضروری ہیں، اور اس میں بھارت، چین، یورپی ممالک جیسے بڑے ملکوں کا کردار اہم ہے۔ ان ممالک کو درجہ حرارت کے اضافے کو روکنے کے لیے فوری طور پر اپنے اقدامات کو تیز کرنا ہوگا۔ اس کے لیے یہ ممالک اپنے مقامی اور عالمی سطح پر مو?ثر حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور عالمی سطح پر کاربن اخراجات کو کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا سکیں (World Resources Institute, 2020)۔ماحولیاتی بحران کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ تمام ممالک مل کر اس مسئلے کا حل نکال سکیں اور زمین کو مزید تباہی سے بچا سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشی ماڈلز اور توانائی کی پالیسیوں کو ماحولیاتی تحفظ کے مطابق ڈھالیں تاکہ زمین اور اس کے وسائل کا تحفظ ممکن ہو سکے۔



