
دوحہ ۔ 21؍ جنوری ۔ (پی آئی سی): اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے رہ نما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ جماعت امریکہ کے ساتھ بات چیت شروع کرنے اور ہر چیز پر مفاہمت حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔
ابو مرزوق کا یہ بیان نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سامنے آیا ہے۔ یہ انٹرویو مزاحمت اور قابض اسرائیلی ریاست کے درمیان جنگ بندی کے معاہدہ کے تقریباً 48 گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔
اخبار نے حماس کے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادگی کے بیانات کو حماس کی جانب سے ایک نادر قدم قرار دیا، جس نے اپنے بین الاقوامی تعلقات کو وسعت دینے اور اپنے امیج کو بہتر کرنے کی تحریک کی کوششوں کے ایک حصہ کے طور پر بیان کیا۔
ابو مرزوق نے امریکی اخبار کو ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘ہم امریکہ کے ساتھ بات چیت اور ہر چیز پر مفاہمت حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس غزہ کی پٹی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی سے ملاقات کے لیے تیار ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے تحفظ بھی فراہم کرے گی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اس طرح کے مکالمے سے واشنگٹن کو فلسطینیوں کے جذبات اور خواہشات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سے امریکی موقف زیادہ متوازن ہو سکتا ہے جو صرف ایک فریق کے نہیں بلکہ تمام فریقوں کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔
اس کے برعکس‘این بی سی’ نیوز نے گذشتہ ہفتہ کو اطلاع دی تھی کہ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیون وٹ کوف جنگ بندی کے معاہدہ کو برقرار رکھنے میں مدد کے لیے غزہ کا دورہ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
اسرائیلی چینل 12 نے بھی آج منگل (21؍ جنوری) کو وٹکوف کے حوالے سے بتایا کہ وہ غزہ کی پٹی کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ صدر کی انتظامیہ جنگ بندی کے معاہدہ کے حوالے سے جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اسے درست طریقہ سے نافذ کیا جائے گا۔
ابو مرزوق نے امریکی صدر کی پیر کو حلف برداری کو ایک ”سنجیدہ صدر‘‘قرار دیا کیونکہ جنگ بندی کے معاہدہ تک پہنچنے میں ان کا کردار فیصلہ کن تھا۔ انہوں نے وٹ کوف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘صدر ٹرمپ اور جنگ کے خاتمہ اور فیصلہ کن نمائندہ بھیجنے پر ان کے اصرار کے بغیر معاہدہ طے نہیں پا سکتا تھا’’۔
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ حماس کو ‘‘اگر وہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے درکار بین الاقوامی امداد کے بہاؤ کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو اسے کچھ رعایتیں دینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔حماس نے پٹی میں سویلین حکومت کو ترک کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن اس نے عسکری ونگ کو ختم کرنے سے انکار کریا۔
امریکہ نے 1997 ء سے حماس کو ایک ‘‘دہشت گرد تنظیم’’قرار ے کر اس پر پابندیاں عائید کی تھیں۔اس کے بعد کچھ دوسرے ممالک نے بھی امریکی پیروی کی۔ تاہم حماس نے حالیہ برسوں میں مغربی حکومتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کی ہیں، جس میں 2017 میں ایک سیاسی دستاویز جاری کرنا بھی شامل ہے جس میں اس نے اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔