فلسطینمسلم دنیا

غزہ میں جنگ بندی سے چند لمحے قبل جاں بحق ہونے والا خاندان

غزہ۔ 20؍ جنوری ۔ (ایجنسیز) : القدرا خاندان، جو پچھلے 15 مہینوں سے اسرائیلی حملوں کا سامنا کر رہا تھا، کئی بار بے گھر ہوا اور ایک خیمے میں رہنے پر مجبور تھا۔ ان کے رشتہ دار ان 46,900 سے زیادہ فلسطینیوں میں شامل تھے جو اسرائیلی حملوں میں مارے گئے۔

لیکن القدرا خاندان اب تک زندہ تھا۔ وہ گھر واپس جانا چاہتے تھے کیونکہ جنگ بندی قریب تھی۔

احمد القدرا نے اپنے سات بچوں کو گدھا گاڑی میں بٹھایا اور مشرقی خان یونس کی طرف روانہ ہوئے۔ انہیں یقین تھا کہ اب سفر محفوظ ہوگا -96 بمباری رک جانی چاہیے تھی۔

لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی میں تاخیر ہوئی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ان چند اضافی گھنٹوں میں بھی اسرائیلی طیارے غزہ کی فضاؤں میں موجود تھے، بمباری کے لیے تیار۔

المناک دھماکہ

دھماکہ بہت زور دار تھا۔ احمد کی بیوی حنان، جو شہر کے مرکز میں ایک رشتہ دار کے گھر رہ گئی تھیں، نے اسے سنا۔ وہ سامان ترتیب دینے میں مصروف تھیں اور چند گھنٹوں بعد اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ شامل ہونے کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔

‘‘دھماکہ ایسا محسوس ہوا جیسے میرے دل پر لگا ہو،’’ حنان نے کہا۔ انہیں فوراً سمجھ آ گیا کہ ان کے بچوں کے ساتھ کچھ ہوا ہے۔

‘‘میرے بچے، میرے بچے!’’ وہ چیخ اٹھیں

گدھا گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ حنان کے سب سے بڑے بیٹے 16 سالہ عدلی اور سب سے چھوٹی بیٹی، چھ سالہ سما جاں بحق ہو گئے۔ 12 سالہ یاسمین نے بتایا کہ گدھا گاڑی کے سامنے ایک چار پہیہ گاڑی تھی، جس میں جنگ بندی کا جشن منانے والے لوگ موجود تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میزائل وہاں لگا۔

‘‘میں نے سما اور عدلی کو زمین پر پڑے دیکھا، اور اپنے والد کو گاڑی میں خون میں لت پت اور بے ہوش پایا،’’ یاسمین نے یہ بات بتائی۔ انہوں نے اپنی آٹھ سالہ بہن اسیٰل کو نکالا، اس سے پہلے کہ دوسرا میزائل اس جگہ کو نشانہ بناتا۔

گیارہ سالہ محمد بھی بچ گئے، لیکن احمد(حنان کے شوہر) کو ہاسپٹل میں مردہ قرار دیا گیا۔

میرے بچے میری دنیا تھے

خان یونس کے ناصر ہاسپٹل میں اپنی زخمی بیٹی ایمان کے بیڈ کے کنارے بیٹھی حنان سکتے میں تھیں۔

‘‘جنگ بندی کہاں تھی؟’’ انہوں نے سوال کیا۔ جنگ کے اختتام پر اپنے گھر واپس جانے کی خوشی میں، خاندان اسرائیلی وزیر اعظم کے اس اعلان سے لاعلم تھا کہ فلسطینی گروپ نے اسرائیلی قیدیوں کے نام فراہم نہیں کیے تھے، جو تاخیر کا سبب بنے۔

تاخیر کے ان تین گھنٹوں میں، القدرا خاندان کے تین افراد شہید ہو گئے۔ غزہ کے سیول ڈیفنس کے مطابق وہ ان 19 فلسطینیوں میں شامل تھے جو ان آخری چند گھنٹوں میں شہید ہو گئے۔

حنان آنسوؤں سے رو پڑیں۔ انہیں اب اپنی زندگی شوہر اور دو بچوں کے بغیر گزارنی ہوگی۔ خاص طور پر سما کا نقصان بہت سخت تھا۔

‘‘سما میری سب سے چھوٹی اور سب سے لاڈلی تھی۔ جب بھی میں کسی اور بچے کی بات کرتی، تو وہ ناراض ہو جاتی،’’ حنان نے کہا۔

عدلی ان کا ‘‘سہارے کا ستون’’ تھا

حنان نے کہا کہ ‘‘ہم نے اس پوری جنگ کو برداشت کیا، بے دخلی اور بمباری کے سخت ترین حالات کا سامنا کیا۔ میرے بچوں نے بھوک، کھانے کی قلت اور بنیادی ضروریات کی کمی کو جھیلا۔’’

‘‘ہم نے ایک سال سے زیادہ عرصہ تک اس جنگ کو جھیلا، صرف اس لیے کہ انہیں جنگ کے آخری لمحات میں مار دیا جائے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟’’

ایک خوشی کا دن ایک ڈراؤنے خواب میں بدل چکا تھا۔ حنان نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ سوال کیا: ‘‘اب کیا بچا ہے؟’’

Related Articles

Back to top button