غزہ ۔ 17؍ ڈسمبر ۔ (پی آئی سی): فلسطینی خالد نبہان کی تین سالہ پوتی ریم کو پچھلے سال نومبر 2023 میں اسرائیلی فوج نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ اس معصوم بچی کی یادیں اور باتیں آج بھی اتنی ہی تازہ ہیں جتنی اس دن تھیں جب اس کی ننھی لاش سے بہتا ہوا گرم لہو اس کے چہرے کو اور زیادہ سرخ کر رہا تھا۔
جس روز ریم وسطی غزہ میں اسرائیلی حملے کا نشانہ بنی، وہ پیر کا دن تھا۔ اس کے بعد ہر پیر خالد نبہان کے لیے درد اور غم کا دن بن گیا۔ ریم کی معصومیت اور مظلومیت کو بیان کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز نے دنیا بھر میں ہمدردی کی ایک لہر پیدا کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود، غزہ کے باسیوں کے لیے یہ ہمدردی محض الفاظ ہی ثابت ہوئے۔
غزہ میں قتل عام کے اعداد و شمار
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 16 ڈسمبر 2024 تک، اسرائیلی بمباری میں 45028 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 70 فیصد بچے اور خواتین شامل ہیں۔ نومبر 2023 میں، جب ریم شہید ہوئی، اسی مہینہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی، لیکن امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔ یہ ویٹو مسلسل چوتھی بار دیا گیا تھا، اور اس فیصلہ نے خالد نبہان جیسے کئی فلسطینیوں کے دکھوں کو مزید بڑھا دیا۔
دادا خالد کی المناک شہادت
تین سالہ ریم کی شہادت کے بعد خالد نبہان نے اپنی پوتی کی معصوم لاش کو چوما اور اس کی یادیں سنبھال کر رکھیں۔ لیکن 16؍ ڈسمبر 2024 کو النصیرات پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی بمباری میں خالد بھی شہید ہو گئے۔ وہ بھی ان 45028 فلسطینیوں میں شامل ہو گئے، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
امریکہ کا کردار اور عالمی بے حسی
امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کی قیادت میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا اس ظلم کو جاری رکھنے کا سبب بن رہا ہے۔ ایسے فیصلہ ریم جیسے معصوم بچوں اور ان کے دادا جیسے بے گناہ افراد کی شہادتوں کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔
دادا اور پوتی جنت میں ساتھ
اب ریم اور اس کے دادا خالد جنت میں اکٹھے ہو چکے ہیں۔ وہ دنیا کے سامنے شاید یہ ہی کہہ رہے ہوں گے:
شکریہ اسرائیل، شکریہ امریکہ، کہ تم نے ہماری زندگی چھین کر ہمیں جنت میں ملوا دیا۔
یہ الفاظ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں لیکن شاید دنیا ابھی بھی بے حسی کے عالم میں ہے۔