یوپی کالج میں نماز کے معاملہ پر تنازعہ۔ شرپسندوں کی ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی
وارانسی ۔ 5؍ ڈسمبر ۔ (اردو لائیو): وارانسی کے ادے پرتاپ کالج، جسے یوپی کالج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، میں مسلمانوں کو نماز ادا کرنے سے روکنے کا تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کالج انتظامیہ اور بعض طلبہ نے نماز ادا کرنے والے افراد کی تعداد محدود کرنے اور ان کے شناختی کارڈز کی جانچ کا مطالبہ کیا ہے، جو مذہبی آزادی پر ایک کھلا حملہ ہے۔
کالج انتظامیہ نے یہ شرط عائد کی ہے کہ کیمپس میں نماز ادا کرنے والوں کی تعداد 50 سے زائد نہ ہو، اور ان کے آدھار کارڈ کی جانچ کی جائے تاکہ یہ معلوم ہو کہ وہ مقامی ہیں یا نہیں۔ اس اقدام کو مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ ایسا کوئی اصول دیگر مذہبی عبادات کے لیے لاگو نہیں کیا گیا۔
29 نومبر کا واقعہ
29 نومبر کو مسلمان حسب معمول کیمپس میں نماز ادا کر رہے تھے۔ اس کے ردعمل میں کچھ ہندو طلبہ نے مزار کے قریب ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا اور کشیدگی کو ہوا دی۔ اس کے بعد پولیس نے سات طلبہ کو گرفتار کیا تھا۔ رہائی کے بعد طلبہ نے الزام لگایا کہ کالج کے ماحول کو خراب کرنے کی سازش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ لیکن یہ نظر انداز کر دیا گیا کہ امن و امان کے مسائل دیگر افراد کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ مسلمانوں کی عبادت کے خلاف یہ قدم ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے تاکہ کالج میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کیا جا سکے۔
مسلمانوں کی عبادت کے حق کی حفاظت ضروری
مسلم طلباء کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ انہیں کیمپس میں اپنی عبادت کے حق کا استعمال کرنے کی مکمل آزادی دی جائے۔ کالج انتظامیہ اور پولیس کو چاہیے کہ وہ امتیازی پالیسیوں سے باز رہیں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔
پولیس کا بیان اور سیکورٹی انتظامات
پولیس کمشنر موہت اگروال نے کیمپس کا دورہ کیا اور کہا کہ فی الحال امتحانات کے پیش نظر باہر کے افراد کے داخلے پر پابندی ہے۔ کیمپس میں صرف طلبہ، اساتذہ، اور عملہ کو اجازت ہے۔
پولیس کمشنر نے کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔ کالج اور پولیس انتظامیہ مل کر نمازیوں کی تعداد کو محدود کرنے پر فیصلہ کریں گے، اور جلد ہی ضلع انتظامیہ کے ساتھ ایک مشترکہ اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
مشترکہ اجلاس کی ضرورت
اس معاملہ کو سلجھانے کے لیے ایک مشترکہ اجلاس منعقد کیا جانا چاہیے تاکہ اس تنازعہ کو ختم کیا جا سکے اور کالج میں امن و امان قائم رہے۔ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ کسی بھی کمیونٹی کے خلاف امتیازی سلوک نہ ہو اور تمام افراد کو اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کا مساوی حق حاصل ہو۔