
ڈاکٹر سید حبیب امام قادری
اسرائیل کا حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی قبول کرنے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے اہم غزہ سے حزب اللہ کو الگ کرنا اور حماس کو تنہا کرنا ہے۔ مزید یہ کہ لبنان میں زمینی محاذ پر اسرائیل کی ناکامی غزہ میں اس کی ناکامی کی طرح نمایاں ہے، حالانکہ اسے فضائی برتری حاصل ہے۔ اسرائیلی فوج اس وقت اسلحہ اور گولہ بارود کی شدید کمی کا شکار ہے۔ غزہ کے عوام پر 15 مہینے تک مسلسل بمباری کرتے ہوئے، اسرائیل نے نہ صرف اپنے ذخائر ختم کر دیے بلکہ اپنے اتحادیوں کے ذخائر بھی خرچ کر ڈالے۔ غزہ پر برسائے گئے بموں کی مقدار دوسری جنگِ عظیم کے ذخائر کے برابر ہے۔
دیگر اہم وجوہات
معاشی اور اقتصادی نقصان: مسلسل راکٹ حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں زندگی مفلوج ہو گئی اور معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔
فوجی مورال کی کمی: طویل جنگ نے اسرائیلی فوج کے حوصلے کو توڑ دیا، جس کی وجہ سے ہزاروں فوجی نفسیاتی دباؤ اور جنگ کے قابل نہ رہنے کی حالت کا شکار ہو گئے۔
داخلی اختلافات: نتن یاہو پر فوجی اداروں کی جانب سے جنگ بند کرنے کے لیے دباؤ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ، نتن یاہو، شاباک اور فوجی قیادت کے درمیان اختلافات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ یہ جنگ اسرائیل کی طویل اور مشکل ترین جنگوں میں سے ایک ثابت ہوئی، جس میں نہ وہ اپنے اہداف حاصل کر سکا اور نہ ہی اپنے قیدیوں کو آزاد کرا سکا۔
اسرائیل کی اندرونی شکست
یہ سب ان کی منصوبہ بندی تھی، لیکن اللہ کی تدبیر کچھ اور ہے۔ آنے والے دنوں میں اس کے اثرات واضح ہوں گے۔ اسرائیل اندر سے بکھر رہا ہے اور داخلی تنازعات اس کی بنیادیں ہلا رہے ہیں۔ متعدد اسرائیلی تجزیہ کاروں اور مصنفین کے مطابق، نہ تو ٹرمپ کی حمایت اور نہ ہی عربوں کا استسلام اسرائیل کو بچا سکے گا۔
مستقبل کے خدشات
اسرائیل پچھلے پانچ سالوں سے داخلی بحرانوں اور عارضی حکومتوں کے ساتھ زندہ رہا ہے۔ اب، مسجدِ اقصیٰ کی تحریک کے بعد، اسرائیل تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہ کوئی خواہشات نہیں بلکہ حقیقت ہے، جو جنگ کے خاتمہ کے بعد عیاں ہو گی۔ اللہ کی نصرت پر یقین رکھیں، چاہے وہ دیر سے ہی کیوں نہ آئے۔