مشہور ٹیچر اور موٹیویشنل اسپیکر ‘‘اودھ اوجھا’’ عام آدمی پارٹی میں شامل ہوگئے (ویڈیو)
نئی دہلی ۔ 2؍ ڈسمبر ۔ (اردو لائیو): مشہور ٹیچر اور موٹیویشنل اسپیکر اوَدھ اوجھا نے ‘‘سیاست کی کلاس’’ میں داخلہ لے لیا ہے۔ انہوں نے پیر (2؍ ڈسمبر) کے روز دہلی میں عام آدمی پارٹی (آپ) کی رکنیت حاصل کرلی۔ آپ کے سربراہ اروند کیجریوال اور پارٹی کے دوسرے بڑے لیڈر منیش سسوڈیا کی موجودگی میں ‘‘آپ’’ کا دامن تھامنے والے اوَدھ اوجھا کا دہلی میں اسمبلی انتخاب لڑنا طے مانا جا رہا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران اوَدھ اوجھا نے انتخاب لڑنے یا نہ لڑنے کا فیصلہ بھلے ہی ‘‘آپ’’ پر چھوڑا ہے، لیکن ذرائع کے مطابق نہ صرف انہیں ٹکٹ ملنا یقینی ہے بلکہ سیٹ بھی فائنل ہو چکی ہے۔ اوجھا کو سابق ڈپٹی سی ایم منیش سسوڈیا کی سیٹ پٹ پڑ گنج سے انتخاب لڑایا جا سکتا ہے۔ منیش سسوڈیا کو اس بار کسی دوسری سیٹ سے اتارا جا سکتا ہے۔ حالانکہ عام آدمی پارٹی کی جانب سے ابھی اس پر کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
دراصل، 10 سال کی اینٹی انکمبنسی سے نمٹنے کے لیے ‘‘آپ’’ اس بار کئی ایم ایل ایز کے ٹکٹ کاٹ سکتی ہے اور کئی بڑے لیڈروں کی سیٹوں میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ مبینہ شراب گھوٹالے میں گرفتاری کے بعد منیش سسوڈیا کو بھی لمبے وقت تک جیل میں رہنا پڑا۔ اس دوران ان کے اسمبلی حلقہ میں بھی کام کاج متاثر ہوا۔ ان کی غیر موجودگی کا فائدہ بی جے پی نے اٹھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
ذرائع کے مطابق، تین بار کے ایم ایل اے سسوڈیا کے لیے اس بار یہ سیٹ بہت زیادہ محفوظ نہیں ہے۔ پچھلے اسمبلی انتخاب میں بھی ان کی جیت کا مارجن کافی کم تھا۔ بی جے پی کے رویندر سنگھ نیگی نے سسوڈیا کو سخت ٹکر دی تھی۔ 2020 میں سسوڈیا محض 3 ہزار ووٹ سے جیت حاصل کر پائے تھے۔ پٹ پڑ گنج سیٹ پر پوروانچل اور اتراکھنڈ کے لوگوں کی اچھی آبادی ہے، جن کے درمیان بی جے پی کی پکڑ بھی کافی مضبوط ہے۔ اس لیے پارٹی نے اس بار اتر پردیش کے گونڈا سے آنے والے اوَدھ اوجھا کو چہرہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اوَدھ اوجھا کی ایک ٹیچر کے طور پر اچھی مقبولیت ہے۔ وہ نوجوانوں کے درمیان کافی مشہور ہیں۔ ایسے میں پارٹی کو امید ہے کہ وہ پٹ پڑ گنج سیٹ پر پوروانچلی اور نوجوان ووٹرس کو اپنے حق میں لا کر جیت حاصل کر سکتے ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ سسوڈیا کو کس سیٹ سے اتارا جائے گا۔ پارٹی انہیں کسی دوسری سیٹ سے اتار سکتی ہے۔ سسوڈیا کے علاوہ کچھ اور بڑے لیڈروں کی سیٹ بھی بدلی جا سکتی ہے۔ پارٹی کے کئی ایسے لیڈر ہیں، جو مسلسل تین بار اپنی سیٹ پر جیت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسی سیٹوں پر ماحول کو پارٹی خاص طور پر بھانپنے میں لگی ہوئی ہے۔