عصرحاضرمیں تعدد ازواج کا مقصد حسن معاشرت ۔ شریعت انفارمیشن سرویس کی 957 ویں نشست سے ڈاکٹر سید حبیب امام قادری کا خطاب

حیدرآباد۔ 15؍ اکٹوبر۔(پریس نوٹ): تعدُدازواج کااصول صرف اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے عربوں’ایرانیوں’یہودیوں’ہندوؤں اورمشرقی اقوام میں یہ چیزرائج تھی۔ پس جن قوموں نے اسلام قبول کیا ان کے لیے یہ کوئی نئی چیزنہ تھی۔ تعددازواج کے اصول کوممنوع قراردیناجواہل مشرق کی آب وہواکی پیداوارہے اورجوان کے رگ وپے میں سرایت کئے ہوئے (انسانی فطرت کوبدلنے کے مترادف ہے)اورہم نہیں سمجھتے کہ کوئی بھی زندہ مذہب اس کی جرات کرسکتا ہے اورجن قوموں میں تعددازواج کوناپسندکیاجاتا ہے’ان کواس کی یہ قیمت دینی پڑی کہ ان کے یہاں اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ایک چیزرائج ہوگئی جس کو مسٹریس (Mistress) کہاجاتا ہے۔ ا ن قوموں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس فطری عمل کوروک سکیں جس کے نتیجہ میں اکثرمعاشرہ میں عورتوں کی تعدادزیادہ اورمردوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے۔ ایک طرف آبادی کے تناسب میں یہ فرق اوردوسری طرف تعددازواج پرپابندی’اس دوطرفہ مسئلہ نے ان کے یہاں مسٹریس کی برائی (بالفاظ دیگرغیرقا نونی تعددازواج)کوپیداکردیا۔آج کی صورت یہ ہے کہ یہ زیادہ ترعورتیں جنسی آوارگی یامعاشرتی بربادی کے لیے چھوڑدی گئیں۔مغرب میں عورت کا یہ حالِ زار دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی عورت کے خلاف خوفناک سازش کا نتیجہ ہے جسے آزادء نسواں کا دلکش اور پُرفریب نام دیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹرسیدحبیب امام قادری نے شریعت انفارمیشن سرویس کی 957 ویں نشست کو بعنوان ‘‘تَعَدُّدِاَزْواج… جواز وحکمت:عصر حاضر کے تناظر میں’’ سے مخاطب کرتے ہوئے 14؍ اکٹوبر (بروز پیر) کو جامع مسجد عالیہ، گن فاؤنڈری’ حیدرآباد میں کیا۔ ابتداء میں حافظ محمدتنویرعالم کی قرات کلام پاک سے نشست کا آغاز ہوا۔ مقرر نے سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اسلامی شریعت میں مسئلہ کے حل کے لیے بتایا گیا ہے۔ یعنی مخصوص شرائط کے ساتھ کچھ مردوں کے لیے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت۔تعددازواج کایہ اصوول جواسلامی شریعت میں مقرر کیاگیا ہے وہ دراصل عورتوں کومذکورہ قسم کے بھیانک انجام سے بچانے کے لیے ہے۔ بظاہراگرچہ یہ ایک عام حکم ہے لیکن اگراس حقیقت کوسامنے رکھئے کہ عملی طورپرکوئی عورت کسی مرد کی دوسری یاتیسری بیوی بننے پرہنگامی حالات میں راضی ہوسکتی ہے نہ کہ معمول کے حالات میں۔تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ حکم دراصل ایک سماجی مسئلہ کے حل کے طورپروضع کیاگیا ہے۔ وہ فاضل عورتوں کوجنسی آوارگی سے بچاکرمعقول اورمستحکم خاندانی زندگی گزارنے کاایک انتظام ہے۔ بالفاظ دیگریہ یک زوجگی کے مقابلہ میں تعددازواج کواختیارکرنے کامسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ تعددازواج اورجنسی بربادی کے در میان انتخاب کامسئلہ پیداہونے کی صورت میں تعددازواج کواختیارکرنا ہے۔عصرحاضرمیں تعددازواج کامقصدحسن معاشرت ڈاکٹرسیدحبیب امام قادری نے کہاکہ تعددِ ازواج کی اجازت کے اسلامی اصول سے دنیا کے کافر بہت خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ اب وحدتِ زوج اور قلت ِاولاد کا اصول اپنا چکے ہیں۔ جبکہ تعددِ ازواج سے مسلمان کثرت سے اور تیزی سے اپنی نسل کو بڑھا سکیں گے۔ ان کو خطرہ ہے کہ اگر مسلمان کی آبادی بڑھنے کی یہی صورتحال رہی یا اس سے بھی تیز ہوگئی تو کہیں ہم اقلیت اور مسلمان دنیا کی اکثریت نہ بن جائیں۔ بغیر کسی جنگ و انقلاب کے مسلمان دنیا پرچھا جائیں گے’اور ہندوستان کے مسلمان تعددِ ازواج کے اصول کو اپنا لیں تو بغیر کسی خاص محنت کے صرف پچاس برس میں وہ ہندوستان کی اکثریت میں تبدیل ہوجائیں گے۔یہ اجازت ضروری ہے تاکہ مغلوب الشھوۃنہ زنا کرے اور نہ معاشرے میں اخلاقی اقدار کو پامال کرے تاکہ ہمارا معاشرہ ان قباحتوں سے محفوظ رہ سکے جو اہل کفر کو درپیش ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اجازت کو بخوشی نہ صرف قبول کیا جائے بلکہ عامل کے لئے حائل مشکلات کا ازالہ ہو اور اسلام نے جن شرائط کے ساتھ اجازت دی ہے، ان شرائط کے ساتھ اس کو رواج بھی دیا جائے خصوصاً وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہ بچے زیادہ پیدا کریں اور تعددِ ازواج کے اُصول پر ضرور عمل کریں۔ جناب محمدضیا الدین محمود نے عنوان کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور مقررکاتعارف پیش کیا۔ جناب محمدانعام احمد کی دعا پر لکچر کا اختتام ہوا۔



