مراکش میں برقعہ پہننے والی طالبات کو اسکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا

کیسابلانکا’ مراکش۔ 6؍ اکٹوبر ۔ (ایجنسیز):مراکش میں برقعہ پہننے کی ممانعت ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے جب ایک اسکول کے پرنسپل نے چار طالبات کو نقاب پہن کر اسکول میں داخل ہونے سے روک دیا۔ یہ واقعہ جمعرات کے روز قلعہ السراغنہ کے علاقے میں پیش آیا اور اس نے معاشرتی و مذہبی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
اس فیصلے نے دو مختلف نظریات کو جنم دیا ہے۔ ایک طبقے کا کہنا ہے کہ یہ پابندی مذہبی آزادی پر قدغن اور خواتین کے لباس کے حق میں مداخلت ہے۔ ان کے نزدیک یہ فیصلہ خواتین کی خودمختاری اور ان کے دینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب، مخالفین کا موقف ہے کہ نقاب پہننے کی ممانعت سکیورٹی کے پیش نظر ایک مناسب اقدام ہے۔ ان کے مطابق، نقاب کی وجہ سے طالبات کی شناخت کرنا مشکل ہو سکتا ہے، جو سکیورٹی کو متاثر کر سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع پر مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ بعض لوگوں نے اس اقدام کو ”مذہبی امتیاز” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ خواتین کو اپنے مذہب کے مطابق لباس پہننے کی آزادی دی جانی چاہیے۔ ان کے مطابق، اس قسم کی پابندیوں سے مسلم خواتین کے حقوق پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔
بہت سے بلاگرز نے اس فیصلے کو نسلی امتیاز سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بلاگرز نے حکومت سے مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ طالبات کو ان کے دینی لباس کے ساتھ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جا سکے۔
دوسری طرف، کچھ بلاگرز نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔ ان کے مطابق، برقعہ مراکش کی روایتی ثقافت کا حصہ نہیں ہے اور اس سے اسکول میں شناخت اور رابطے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بلاگر نے لکھا کہ ‘‘اسکولوں کو قدیم روایات سے دور رہ کر جدید تعلیم کی ترویج کرنی چاہیے تاکہ طالب علموں کے ذہنوں کو کھولا جا سکے اور انہیں معتدل اسلامی اقدار کے مطابق پروان چڑھایا جا سکے۔’’
یہ واقعہ مراکش میں مذہبی آزادی، ثقافتی شناخت، اور خواتین کے حقوق پر ایک نئے مباحثے کا آغاز بن گیا ہے۔



