شملہ میں مسجد کی تعمیر کو لیکر ہندو تنظیموں کا پرتشدد احتجاج ۔ پولیس پر پتھراؤ ۔ اسد الدین اویسی کی ہماچل کے کانگریسی وزیر پر کڑی تنقید

شملہ ۔ 11؍ ستمبر ۔ (اردو لائیو): ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں چہارشنبہ کے روز ہندوتوا تنظیم دیو بھومی مسجدکی تعمیر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے منہدم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پرتشدد احتجاج شروع کیا۔ شملہ کے سنجولی میں واقع یہ مسجد کا راستہ ڈھلی ٹنل سے گزرتا ہے۔ ہندوتوا تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے یہاں سڑک پر ہنومان چالیسہ پڑھی اور جے شری رام کے نعرے لگائے۔احتجاجیوں نے پولیس کے بیریکیڈ توڑ دیے۔ پولیس نے دو بار لاٹھی چارج کیا اور واٹر کینن چلائی گئی۔ پتھراؤ اور جھڑپ میں ایک احتجاجی اور پولیس اہلکار زخمی ہوا ہے۔
سنجولی مسجد 1947 تعمیر کی گئی تھی۔ 2010 میں اس کی نئی عمارت بننی شروع ہوئی تو میونسپل کارپوریشن میں شکایت کی گئی تھی۔ اب مسجد 5 منزلہ ہے۔تازہ تنازعہ 31 اگست کو اس وقت شروع ہوا، جب 2 گروپوں کے درمیان مارپیٹ ہوئی۔ اس کے بعد ہندو تنظیموں نے مسجد کی تعمیر کو غیر قانونی بتاکر عمارت منہدم کرنے کی مانگ کی۔
کئی ہندوتوا رہنما ؤں سمیت پولیس نے ہندو جاگرن منچ کے رہنما کمبل گپتا کو حراست میں لے لیا ہے۔ ہندوتوا تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ان کے ایک درجن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ڈھلی ٹنل کے قریب آمد و رفت بند کر دی گئی ہے۔ پورے علاقے کی ڈرون کے ذریعہ نگرانی کی جارہی ہے۔
سنجولی میں پولیس نے منگل کی رات فلیگ مارچ نکالا اور ڈی سی انوپم کشپ نے دفعہ 163 نافذ کردیا ہے۔ اس کے تحت صبح 7 بجے سے رات 11:59 بجے تک پانچ یا اس سے زیادہ لوگوں کو اکٹھے ہونے یا ہتھیار لے کر چلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
سرکاری اور پرائیویٹ آفیسیس، اسکولس، بازار معمول کے مطابق کھلے رہیں گے۔ کسی بھی شخص کو دھرنا یا احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔
عدالت نے اسٹیٹس رپورٹ جمع کرانے کو کہا شخص سے مارپیٹ کے خلاف ہندو تنظیمیں بھڑک گئیں۔ انہوں نے سنجولی میں 1 ستمبر اور چوڑا میدان میں 5 ستمبر کو احتجاج کیا۔ اس کے بعد 7 ستمبر کو کمشنر کورٹ میں 45ویں بار سماعت ہوئی۔ یہاں
وقف بورڈ نے کورٹ میں مسجد کی ملکیت کے دستاویزات جمع کرائے۔ کورٹ نے اس معاملے میں 5 اکتوبر کو سماعت طے کی ہے اور متعلقہ جونیئر انجینئر (جے ای) کو تازہ اسٹیٹس رپورٹ جمع کرانے کو کہا ہے۔
1947 میں تعمیر ہونے والی مسجد کے امام شہزاد نے کہا کہ مسجد 1947 سے پہلے موجود ہے۔ پہلے مسجد کچی تھی اور 2 منزلہ تھی۔ لوگ مسجد کے باہر نماز پڑھتے تھے، جس سے نماز پڑھنے میں دشواری ہوتی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے لوگوں نے چندہ جمع کیا اور مسجد کی دوبارہ تعمیر شروع کی۔
انہوں نے مزید کہاکہ مسجد کی 2 منزلوں کو لے کر تنازعہ کورٹ میں چل رہا ہے۔ وقف بورڈ اس کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ قانون کا جو فیصلہ کرے گا وہ سب کو قبول ہوگا۔
ہماچل پردیش کے چیف منسٹر نے کہاکہ قانون کسی کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے ’ انتظامیہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ پرامن احتجاج پر کوئی روک نہیں۔ ہم تمام کمیونٹیز کا احترام کرتے ہیں۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسے سیاسی رنگ دینا درست نہیں ہے۔ اسمبلی میں کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جو کہ اسٹریٹ وینڈر کے لیے پیرامیٹرز طے کرے گی۔ مسجد پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
احتجاج کرنے ہندوتوا تنظیموں نے دو دن کا الٹی میٹم دیا تھا جمعرات، 5 ستمبر کو مختلف تنظیموں کے ساتھ مقامی لوگ بھی سڑکوں پر آ گئے تھے۔ ان کی مانگ تھی کہ مسجد کے غیر قانونی تعمیر کو گرا دیا جائے۔ اس کے لیے احتجاج کرنے والوں نے 2 دن کا الٹی میٹم دیا تھا۔
وزیر پنچایت راج انیرودھ سنگھ بھی احتجاج کے مقام پر گئے تھے۔ انہوں نے ہماچل اسمبلی کہا تھا کیا یہاں روہنگیا تو نہیں آ گئے۔ سنجولی میں مسجد کی وجہ سے لوگوں میں غصہ ہے۔ ایک خاص کمیونٹی کے نئے نئے لوگ روز یہاں آ رہے ہیں۔ کیا یہ روہنگیا مسلمان ہیں؟ وہ کچھ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں، جو بنگلہ دیشی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مقامی شخص غیر قانونی تعمیر کرے تو اسے توڑ دیا جاتا ہے اور سنجولی میں بغیر اجازت پانچ منزلہ مسجد بنا دی گئی، لیکن اسے نہیں توڑا گیا۔
مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے ایکس پر لکھا تھا‘‘ہماچل میں کانگریس حکومت کے وزیر انیرودھ سنگھ بی جے پی کی زبان بول رہے ہیں۔’’



