وزیر اعظم نریندر مودی نے ‘‘یکساں سیول کوڈ’’ کو ‘‘سیکولر سیول کوڈ ’’ کیوں کہا!…نئی بوتل میں پرانی شراب

نئی دہلی ۔ 15؍ اگسٹ ۔ (اردو لائیو): وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے مساوی شہری قانون (یکساں سیول کوڈ ۔ یو سی سی) کی وکالت کی۔ انہوں نے بی جے پی کے بنیادی ایجنڈوں میں سے ایک یکساں سیول کوڈ (یو سی سی) پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اب ملک کو اس کی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں ایک الگ بات یہ تھی کہ اس کا نیا نام رکھتے ہوئے انہوں نے اسے ‘‘سیکولر سیول کوڈ’’ بتایا’ یعنی ‘‘نئی بوتل میں پرانی شراب’’۔ وزیر اعظم مودی نے سپریم کورٹ کے احکام کا ذکر کیا’ اور اس موضوع پر ملک میں سنجیدہ بحث کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ ‘‘ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ مانتا ہے کہ جو شہری قانون ہم لوگ اپنائے ہیں، وہ حقیقتاً فرقہ وارانہ اور امتیاز کرنے والا قانون ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس پر ملک میں سنجیدہ بحث ہو اور ہر کوئی اپنے خیالات پیش کرے۔’’
انہوں نے کہاکہ ‘‘جو قوانین مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرتے ہیں، اونچ نیچ کا سبب بنتے ہیں۔ ان قوانین کا جدید سماج میں کوئی مقام نہیں ہو سکتا۔ اب ملک کا مطالبہ ہے کہ ملک میں مذہب سے بے نیاز شہری قانون ہو۔’’ اب سوال یہ ہے کہ جس مساوی شہری قانون پر بی جے پی جارح رہی ہے اور اتراکھنڈ سمیت کئی ریاستوں کی حکومتیں اس پر آگے بڑھ چکی ہیں، وزیر اعظم مودی نے اسے نیا نام کیوں دیا؟
ماہرین کا خیال ہے کہ نئی اصطلاح کے ذریعہ وزیر اعظم مودی نے اپوزیشن کو گھیرنے کی کوشش کی ہے۔ اکثر کانگریس، سماج وادی پارٹی، آر جے ڈی، این سی پی جیسے تمام اپوزیشن جماعتیں ملک میں سیکولرزم کی بات کرتی ہیں۔ ایسے میں یکساں سیول کوڈ کو سیکولرسیول کوڈ کہتے ہوئے وزیر اعظم مودی ’ اپوزیشن پرحملہ کرنے کوشش کی ہے کہ سیکولرزم کی بات کرنے والے اس پر خاموش کیوں ہیں۔ خاص طور پر فرقہ واریت اور سیکولرزم کی بحث کو بھی انہوں نے نیا موڑ دیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں الزام لگاتی رہی ہیں کہ ایک طبقہ کو ہدف بنانے کے لیے بی جے پی اس مسئلہ کو اُٹھاتی رہی ہے۔ ایسے میں بی جے پی نے یکساں سیول کوڈ (یو سی سی) کا نام ہی سیکولرسیول کوڈ رکھ دیا ہے تو پھر اپوزیشن کو ایسا کہنے میں بھی مشکل ہوگی۔
بی جے پی کے دو ایجنڈے پورے ۔ اب تیسرے پر ہے توجہہ
قابلِ ذکر ہے کہ بی جے پی کے تین ایجنڈے رہے ہیں۔ پہلا رام مندر، دوسرا آرٹیکل 370 اور تیسرا یکساں سیول کوڈ۔
بی جے پی نے پچھلے دس سالوں میں مرکز میں حکومت کی’ رام مندر اور آرٹیکل 370 کے ایجنڈے کو پورا کر لیا ہے۔ اب یکساں سیول کوڈ کے مسئلے پر بی جے پی آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اس سے ایک طرف اس کے ووٹ بینک کی سیاست چلتی رہے گی اور دوسری طرف مسلمانوں کے ردعمل سے فائدہ بھی ہوگا یعنی مسلمانوں کے رد عمل کو فرقہ وارانہ رنگ دینے ’ اپنی پراگندی سیاست’ معاشرے کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوجائیگی۔ اب جب وزیر اعظم مودی نے لال قلعہ سے ہی اس مسئلے کو اُٹھا دیا ہے تو واضح ہے کہ بی جے پی اس مسئلے پر مزید جارحیت سے میدان میں اترے گی۔



