اقتدار سے ہٹانے میں امریکہ کا ہاتھ ؟سابقہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کا دعویٰ

نئی دہلی ۔ 11؍ اگسٹ ۔ (اردو لائیو): بنگلہ دیش میں وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ کے 6 دن بعد شیخ حسینہ نے کہا ہے کہ امریکہ کو سینٹ مارٹن آئی لینڈ نہ دینے کی وجہ سے ان کی حکومت گرائی گئی ہے۔
بنگلہ دیشی ڈیکٹیٹر شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ میں سینٹ مارٹن جزیرہ اور بنگال کی خلیج کو امریکی کنٹرول میں دے کر اپنی کرسی بچا سکتی تھی۔ میں اپنے ملک کی عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ انتہا پسندوں کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ اللہ کی مہربانی سے میں بنگلہ دیش جلد واپس آؤں گی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر امریکہ اور برطانیہ نے بنگلہ دیش کی سابقہ ڈیکٹیٹر کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا تھا۔
امریکہ ’ بنگلہ دیش سے سینٹ مارٹن جزیرہ مانگ رہا ہے۔
اس سے پہلے جون 2021 میں بنگلہ اخباروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکہ، بنگلہ دیش سے سینٹ مارٹن جزیرہ مانگ رہا ہے۔ وہ یہاں ملٹری بیس بنانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد بنگلہ دیش ورکرز پارٹی کے صدر رشید خان میمن نے بھی پارلیمنٹ میں کہا کہ امریکہ سینٹ مارٹن جزیرہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور کوڈ کے ممبر بننے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
سینٹ مارٹن جزیرہ جس کے بارے میں بنگلہ دیش کی سیاست میں زبردست ہنگامہ ہوا تھا یہ جزیریہ 3 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ میانمار سے اس کی دوری صرف 5 میل ہے۔ جون 2023 کو وزیر اعظم حسینہ نے کہا تھا کہ اگر اپوزیشن بی این پی پارٹی اقتدار میں آئی تو وہ سینٹ مارٹن بیچ دیں گے۔
بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ اگر میں نے امریکہ کو بنگال کی خلیج میں اختیارات دے دیے ہوتے تو میری حکومت قائم رہتی۔ لیکن میں نے اپنے ملک کے لوگوں کا خیال رکھا۔ شیخ حسینہ نے لوگوں سے یہ بھی اپیل کی کہ وہ انتہا پسندوں کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ قابلِ ذکر ہے کہ مئی میں حسینہ نے بنگلہ دیش اور میانمار کے کچھ حصوں کو تقسیم کر کے مشرقی تیمور کی طرح ایک عیسائی ریاست بنانے کی سازش کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر وہ کسی غیر ملکی ملک کو بنگلہ دیش میں ایئر بیس قائم کرنے کی اجازت دیتی ہیں تو انہیں بہت آسانی سے دوبارہ وزیراعظم منتخب کر لیا جائے گا۔ حالانکہ انہوں نے اس وقت ملک کا نام نہیں بتایا تھا۔
شیخ حسینہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر وہ ملک میں رک جاتی تو اور زیادہ ہلاکتیں ہو جاتی۔ اتنا ہی نہیں، احتجاج بھی کافی شدت اختیار کرتا اور اس سے نقصان بھی کافی ہوتا۔ انہوں نے بنگلہ دیشیوں سے کہا کہ میں آپ کی لیڈر بنی، کیونکہ آپ نے مجھے منتخب کیا تھا۔ یاد رہے کہ شیخ حسینہ کے استعفیٰ کے بعد بنگلہ دیش میں 300 سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ابھی تک وہاں پر مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 560 ہو چکی ہے۔
حسینہ واجد نے کہا کہ ان کے الفاظ کا غلط استعمال کرکے طلباء کو بھڑکایا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ میں نے کبھی بھی احتجاجی طلباء کو رضا کار کہہ کر نہیں بلایا۔
قابلِ ذکر ہے کہ بنگلہ دیش میں سیاسی حالات کافی زیادہ خراب ہو گئے تھے۔ پانچ اگست کو طلباء کا احتجاج تیز ہوا تھا۔ یہ لوگ سرکاری ملازمت میں متنازعہ کوٹہ سسٹم ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد بڑھتے ہوئے تشدد سے ڈر کر شیخ حسینہ ملٹری ایئرکرافٹ میں سوار ہو کر ہندوستان پہنچ گئیں تھیں۔ فی الحال وہ ہندوستان میں ہی موجود ہیں۔ بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم کی گئی ہے۔



