
مختار انصاری کے بیٹے کی ایک درخواست پر سنوائی کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم انہیں واپس تو نہیں لا سکتے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ انہیں جیل میں زہر دیکر مار دیا گیا تھا۔
نئی دہلی ۔ 16؍ جولائی۔ (ایجنسیز) : مختار انصاری کے بیٹے عمر انصاری کی درخواست پر سپریم کورٹ نے یوپی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عمر نے درخواست میں کہا تھا کہ جیل میں انکے والد کی طبی موت نہیں تھی بلکہ انہیں زہر دیا گیا تھا اور علاج سے انکار کیا گیا تھا۔ انصاری کی طرف سے کورٹ میں سینئر وکیل کپل سبل پیش ہوئے تھے۔ نوٹس جاری کرتے ہوئے جسٹس رشکیش رائے اور ایس وی بھٹی کی بنچ نے کہا، اب ہم انہیں واپس نہیں لا سکتے۔ درخواست گزار نے انکاؤنٹر جیسی صورتحال کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
مؤ صدر سے پانچ بار ایم ایل اے رہ چکے مختار انصاری کا 28 مارچ کو باندہ جیل میں انتقال ہوگیا تھا۔۔ بتایا گیا تھا کہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے وہ جان کی بازی ہار گئے۔ حالانکہ سپریم کورٹ مختار انصاری کی جس درخواست پر سنوائی کر رہا تھا وہ 2023 میں جاری کی گئی تھی جس میں مختار انصاری کے قتل کا خدشہ جتاتے ہوئے سیکوریٹی کی مانگ کی گئی تھی۔ اس معاملے میں کپل سبل نے سپریم کورٹ میں کہا، ہمیں جس بات کا ڈر تھا، وہی ہوا۔
اس پر بنچ نے کہا، ہم انہیں واپس نہیں لا سکتے۔ یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ درخواست گزار نے انکاؤنٹر جیسی صورتحال کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ کپل سبل نے کہا کہ اس معاملے کی جانچ کی جانی چاہیئے اور کسی بھی انسان کے ساتھ اس طرح کا سلوک مناسب نہیں ہے۔ اسکے بعد کپل سبل نے عرضی میں ترمیم کی درخواست دی ہے۔ سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالسٹر جنرل کے ایم نٹراج کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس پر جواب داخل کر سکتے ہیں۔ اسکے لیے چار ہفتہ کا وقت دیا گیا ہے۔
سبل نے کہا کہ درخواست گزار کے والد کو جیل کے کھانے میں زہر دیا گیا تھا۔ اسکے علاوہ انکی طبیعت بگڑنے کے بعد بھی انکا علاج نہیں کروایا گیا۔ اس وجہ سے انکی موت ہو گئی۔ درخواست گزار نے مانگ کی تھی کہ مختار انصاری کی سیکوریٹی کے لیے انہیں یوپی کے باہر کی کسی جیل کو منتقل کیا جائے۔ مختار انصاری کو 2005 میں جیل ہوئی تھی۔ موت کے بعد آٹوپسی رپورٹ میں بھی ہارٹ اٹیک کو ہی موت کی وجہہ بتایا گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ انکے جسم میں کوئی بھی جہر نہیں پایا گیا ہے۔



