14 سال پہلے خان نے کیا تھا احسان، ڈی ایس پی بن ملنے پہنچے سنتوش پٹیل۔ ویڈیو میں بتائی دوستی کی داستان

بھوپال ۔ 16؍ نومبر ۔ (اردو لائیو): مدھیہ پردیش کے ضلع بھوپال میں ہفتہ (9؍ نومبر) کو ایک جذباتی منظر دیکھنے کو ملا۔ اچانک پولیس کی گاڑی ٹھیلہ پر سبزی بیچنے والے سلمان خان کے پاس آ کر رکی۔ اُس نے گھبرا کر دیکھا تو ڈپٹی پولیس سپرنٹنڈنٹ (ڈی ایس پی) سنتوش پٹیل اس کا نام پکار رہے تھے۔ خان نے پٹیل کو سیلوٹ کیا۔ جس کے جواب میں ہنستے ہوئے ڈی ایس پی نے پوچھا ‘‘مجھے پہچانتے ہو؟’’ اس پر سبزی فروش نے جواب دیا ‘‘بالکل اچھی طرح سر۔ آپ سبزی لینے آتے تھے۔’’ دراصل، پولیس افسر کافی لمبے وقت سے خان کو ڈھونڈ رہے تھے۔
14 سال بعد ہوئی ملاقات
پٹیل اور خان کے درمیان یہ ملاقات 14 سال بعد ہوئی تھی۔ اتنے سالوں بعد انہوں نے اُسے اُس کے ہونٹ کے پاس نشان سے پہچانا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ پٹیل نے اُس وقت کو یاد کیا جب خان کی ہمدردی نے اُن کے دل میں جگہ بنائی تھی، تب وہ بھوپال میں ایک جدوجہد کرنے والے انجینئرنگ کے طالب علم تھے۔ اب گوالیار کے بیہات ڈویژن میں تعینات ڈی ایس پی پٹیل نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پناہ میں 120 لوگوں کے اپنے خاندان میں میں پہلا گریجویٹ ہوں۔ میں اپنے خاندان کا پہلا پولیس افسر بھی ہوں۔ میں تمام مشکلات کے باوجود انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے بھوپال آیا اور پھر ایم پی پبلک سروس کمیشن کی تیاری کی۔ ایسے بھی دن تھے جب میرے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ خان اتنے ہمدرد تھے کہ انہوں نے مجھے ٹماٹر اور بیگن کھلائے۔ ان کا دل سونے جیسا ہے۔
مجھے ان پر فخر ہے
دوسری طرف خان نے کہا کہ جب پولیس وین آئی تو میں ڈر گیا۔ لیکن جب میں نے پٹیل کو دیکھا، تو مجھے ایک بہت پرانا کھویا ہوا دوست مل گیا۔ میں نے ہزاروں لوگوں کو سبزیاں بیچیں لیکن کسی نے میرا چہرہ یاد نہیں کیا۔ لیکن پٹیل آئے اور مجھ سے ملے۔ میں نے انہیں سوشل میڈیا پر فالو کیا تھا اور مجھے ان پر فخر تھا کہ وہ ایک افسر بن گئے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ مجھ سے ملیں گے۔ انہوں نے مجھے مٹھائی کا ایک ڈبہ اور کچھ کیش دیا۔ انہیں اپنی جڑیں یاد ہیں، میں یاد ہوں۔ یہ ایک خواب کا سچ ہونا جیسا تھا۔
2009 میں ہوئی تھی دونوں کی پہلی ملاقات
خان اور پٹیل کی پہلی ملاقات 2009-10ء میں ہوئی تھی۔ اُس وقت پٹیل پناہ کے دیوگاؤں سے نکل کر بھوپال آئے تھے۔ ان کے والد ایک ہنر مند تھے جبکہ ان کے خاندان کے زیادہ تر اراکین مقامی پوسٹ مین کے طور پر کام کرتے تھے۔ پٹیل کی بڑی بہن کی شادی کم عمری میں ہی ہوگئی تھی اور اب وہ اپنے بھائی سے متاثر ہوکر بی۔کام کرنا چاہتی ہے۔ پٹیل نے پرانے دن یاد کرتے ہوئے کہا کہ میں کیروسین لیمپ کے نیچے پڑھائی کرتا تھا اور کئی بار میرے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ میں روزگار کے لیے چھوٹے چھوٹے کام کرتا تھا۔ تب میری خان سے دوستی ہوئی۔



