تین طلاق مسلم خواتین کے لیے خطرناک’ سخت سزا ضروری۔ سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کا حلف نامہ

نئی دہلی ۔ 19؍ اگسٹ ۔ (اردو لائیو): مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ تین طلاق سماج میں ازدواجی نظام کے لیے خطرناک ہے اور یہ مسلم خواتین کی حالت کو ابتر بنا دیتا ہے۔ مرکزی حکومت نے حلفنامہ داخل کر کے سپریم کورٹ میں یہ دلیل دی ہے۔ مرکزی حکومت نے کہا کہ مسلم طبقہ میں رائج تین طلاق کے خلاف سپریم کورٹ کا 2017 کا حکم بھی طلاق کے کیسوں کو کم نہیں کر پا رہا ہے۔ ایسی صوتحال میں اسے جرم قرار دینا ضروری ہے۔
مرکزی حکومت نے کہاکہ تین طلاق کے متاثرین کے پاس پولیس کے پاس جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ جاتا ہے۔ جبکہ پولیس بھی اس معاملہ میں بے بس ہو جاتی تھی کیونکہ قانون میں سخت کارروائی کا کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے ملزم شوہر پر کارروائی کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ دراصل سپریم کورٹ میں ایک درخواست میں کہا گیا تھا کہ جب کورٹ نے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے تو اسے جرم قرار دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اسی درخواست کو لے کر مرکز نے سپریم کورٹ میں حلفنامہ داخل کر کے اپنا موقف پیش کیا ہے۔
درحقیقت اس مہینہ کے آغاز میں کیرالہ جماعت العلماء کی طرف سے درخواست دائر کی گئی تھی۔ درخواست گزار نے مسلم خواتین (شادی کے بعد حقوق کا تحفظ) قانون 2019 کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کسی قانون میں اسے جرم نہیں قرار دیا جا سکتا۔
دوسری طرف مرکزی حکومت نے درخواست گزار کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تین طلاق خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ آئین میں خواتین کو بھی برابری کا حق دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے قانون بنایا ہے۔ اس میں صنفی انصاف اور خواتین کی برابری کے حقوق کو یقینی بنایا گیا ہے۔



