بھوج شالہ کمال مولا مسجد پر اے ایس آئی کی رپورٹ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں داخل

اندور ۔ 15؍ جولائی: آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے بھوج شالہ کمال مولا مسجد معاملے میں اپنی رپورٹ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں دائر کر دی ہے۔ اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مسجد کو مندر کے کچھ حصوں سے بنایا گیا۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے بھوج شالہ کمال مولا مسجد معاملے میں اپنی رپورٹ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں دائر کر دی ہے۔ سروے کے بعد اے ایس آئی نے دو ہزار صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ ہائی کورٹ میں داخل کردی ہے۔ اے ایس آئی نے کہا ہے کہ اب تک کی تحقیقات اور مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ ڈھانچہ پہلے کے مندر کے کچھ حصوں سے بنایا گیا ہے۔ یہ بات بار اینڈ بنچ کی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
ہائی کورٹ نے مدھیہ پردیش کے دھار ضلع میں واقع متنازعہ جگہ کے سروے کا حکم دیا تھا، جسمیں بھوج شالہ کمال مولا مسجد ہے۔ سپریم کورٹ نے مئی میں سروے پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ کی اندور بنچ کے سامنے رٹ پٹیشن دائر کرتے ہوئے ہندو فریق نے پورے بھوج شالہ کامپلیکس پر اپنا حق جتایا ہے اور یہاں مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے، سجے ہوئے ستونوں اور فن تعمیر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پہلے کے مندر کا حصہ تھے اور انکا استعمال مسجد کے ستونوں کو بنانے کے لیے کیا گیا۔’ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک ستون پر دیوتاؤں کی بکھری تصویریں ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسجد میں انسانوں یا جانوروں کی تصاویر نہیں ہو سکتیں، اسلئے کئی جگہوں پر ایسی تصویروں کو مسخ کیا گیا ہے۔ اے ایس آئی نے نتیجہ اخذ کیا ’ ‘سائنسی تحقیقات، سروے، کھدائی، اس میں ملی چیزوں کے مطالعہ اور تجزیہ ’ آثار قدیمہ کی اشیاء ، مورتیاں اور نوشتہ جات، آرٹ اور صحیفوں کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ ڈھانچہ مندر کے حصوں سے بنایا گیا ہے۔ معاملے کی اگلی سنوائی اب ہائی کورٹ میں 22؍ جولائی کو ہوگی۔
فیصلہ سپریم کورٹ کی سطح پر ہی ہوگا
دھار شہر کے قاضی وقار صادق نے صحافیوں کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی ہدایت دی ہے کہ اے ایس آئی کی رپورٹ پر ہائی کورٹ کی سطح سے کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی ہے۔ ہائی کورٹ میں 22؍ جولائی کو سماعت ہے، لیکن فیصلہ سپریم کورٹ کی سطح پر ہی ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سننے میں آیا ہے کہ رپورٹ فریقین کو دی جا رہی ہے۔ رپورٹ کی رازداری برقرار رکھنے کی ہدایات بھی سپریم کورٹ نے دی تھی، ایسے میں فریقین کو رپورٹ دی جانی تھی یا نہیں’ اس صورتحال پر بھی جانکاری لے رہے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی بھی فریق رپورٹ عام نہیں کریگا، تاکہ امن قائم رہے۔