
نئی دہلی ۔ 13؍ ستمبر ۔ (اردو لائیو): سپریم کورٹ نے جمعرات (12 ستمبر) کو کہا کہ بلڈوزر کی کارروائی ملک کے قوانین پر بلڈوزر چلانے کے مترادف ہے۔ کسی پر جرم میں ملوث ہونے کا الزام اس کی جائیداد کو گرانے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
جسٹس ہرشکیش رائے، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بنچ نے یہ ریمارکس ایک مکان کے انہدام سے متعلق ایک عرضی کی سماعت کے دوران دیے۔ عدالت نے کہا کہ اگر کسی شخص نے جرم کیا ہے تو اس کے پورے خاندان یا قانونی طور پر بنائے گئے مکان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
ستمبر میں یہ دوسرا موقع ہے جب سپریم کورٹ نے بلڈوزر کی کارروائی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل 2 ستمبر کو عدالت نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی معاملے میں قصوروار ہو تب بھی ایسی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
گجرات کی کھیڑا میونسپل کارپوریشن نے بلڈوزر کارروائی کی دھمکی دی تھی دراصل گجرات میں میونسپل کارپوریشن کی جانب سے ایک خاندان کو بلڈوزر کی دھمکی دی گئی تھی۔ درخواست گزار گجرات کے کھیڑا ضلع میں کتھلال میں ایک زمین کا شریک مالک ہے۔ ان کے خلاف 1 ستمبر 2024 کو ایک کیس میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
درخواست گزار کے مطابق ایف آئی آر درج ہونے کے بعد میونسپل کارپوریشن کے اہلکاروں نے ان کے گھر کو بلڈوز کرنے کی دھمکی دی۔ تب انہوں نے اس معاملہ کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ملزم کے خاندان کی تین نسلیں اس گھر میں تقریباً دو دہائیوں سے رہ رہی ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہاکہ عدالت میں جرم کو قانونی عمل سے ثابت کریں درخواست گزار کی دلیل پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزم کے خلاف جرم کو قانونی عمل سے ثابت کیا جائے۔ جس ملک میں قانون کی بالادستی ہو وہاں عدالت ایسی دھمکیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔
سپریم کورٹ نے میونسپل حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس میں جمود برقرار رکھنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے ریاست اور میونسپل کارپوریشن سے چار ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے۔
‘‘جرم کو قانون کی عدالت میں قانونی عمل کے ذریعے ثابت کیا جانا چاہیے۔ عدالت تباہی کی ایسی دھمکیوں سے لاعلم نہیں رہ سکتی۔ یہ ہندوستان جیسے ملک میں ناقابل تصور ہے، جہاں قانون کی بالادستی ہے۔’’ سپریم کورٹ
عدالت نے 2 ستمبر کو کہا تھا کہ اگر بیٹا ملزم ہے تو باپ کے گھر کو گرانا درست نہیں ہے، 2 ستمبر کو سپریم کورٹ نے جمعیت علمائے ہند کی درخواست پر سماعت کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند نے الزام لگایا تھا کہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بلڈوزر کارروائی کی جا رہی ہے۔
عدالت نے کہا تھا کہ اگر کوئی صرف ملزم ہے تو جائیداد گرانے کی کارروائی کیسے ہوسکتی ہے؟ جسٹس وشواناتھن اور جسٹس بی آر گاوائی کی بنچ نے کہا تھا کہ ‘‘اگر کوئی قصوروار ہو تب بھی ایسی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔’’
سپریم کورٹ نے کہاکہ ہم یہاں غیر قانونی تجاوزات کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ اس معاملے سے متعلقہ فریقین تجاویز دیں۔ ہم پورے ملک کے لیے گائیڈ لائنز جاری کر سکتے ہیں۔ کسی کا بیٹا ملزم ہو سکتا ہے، لیکن اس بنیاد پر باپ کا گھر گرا دو! یہ عمل کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔
تین ریاستیں جہاں پچھلے 3 مہینوں میں بلڈوزر کی کارروائی ہوئی ہے
اگست 2024: مدھیہ پردیش کے چھتر پور میں 21 اگست کو کوتوالی پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کرنے والے ملزم کے گھر پر کارروائی، حکومت نے ایک تین منزلہ حویلی کو منہدم کردیا۔ 20 کروڑ روپے کی لاگت سے بنائی گئی یہ حویلی20 ہزار مربع فٹ پر مشتمل تھی۔ یہاں تک کہ جب ان کی حویلی کو گرایا جا رہا تھا، تب بھی ان کے خاندان کا کوئی فرد یہاں موجود نہیں تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق چاروں بھائیوں نے ہجوم کو پولیس پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا تھا۔
اگست 2024: راجستھان کے ادے پور میں دو اسکولی طلباء کے بیچ پیش آئے چاقو زنی کے واقعہ کے بعد شہر بھر میں آتش زنی اور پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ 17 اگست کو ملزم طالب علم کے گھر پر بلڈوزر کارروائی کی گئی۔ اس سے قبل حکومت کی ہدایت پر محکمہ جنگلات نے ملزم کے والد سلیم شیخ کو غیر قانونی کالونی میں بنایا ہوا مکان خالی کرنے کا نوٹس دیا تھا۔
جون 2024: مراد آباد اور بلیا، اتر پردیش میں 2 ملزمان کی 6 جائیدادیں مسمار کر دی گئیں، مراد آباد میں ایک شادی شدہ خاتون کو اغوا کرنے کی کوشش کرنے والے شخص کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا گیا۔ ملزمان نے اغوا کے خلاف احتجاج کرنے والی خاتون کے والدین اور بھائی کو گولی مار دی تھی۔ اسی دوران بریلی میں روٹی کے تنازعہ پر ایک نوجوان کو ہلاک کرنے والے ہوٹل مالک ذیشان کے ہوٹل کو زمین بوس کر دیا گیا۔



